-->

18 ستمبر، 2013

حب الوطنی

چودہ اگست کو گزرے ایک عرصہ ہو گیا ۔ لیکن آپ سوچ رہے ہونگے کے یہ آج ایک دم سے حب الوطنی کہاں سے جاگ اٹھی توپچھلے کچھ دنوں سے ہماری وطن سے محبت جو ایک عرصہ دراز سے میٹھی لسی پی کر سو رہی تھی اُس کو بُری طرح جھنجوڑاگیا اُس پر بے انتہا شب خون مار گئے لیکن بے سود اچانک ایک چھوٹی سی بات ایسی ہو گئی کے یہ خود ہی شرمندگی کے بستر سے اٹھی کھڑی ہوئی ۔
ایک دوست جس کو میں پیار سے سومو پہلوان کہتا ہوں سنگاپور سے تعلق رکھتی ہے اپنا کمپیوٹر ٹھیک کروانے کیلئے لائی ہم نے ہاتھوں ہاتھ اُس کی پرابلم ٹھیک کر کے واپس کر دیا کہنے لگی تم بڑے ذہین ہو میرے مُلک میں اِس کو ٹھیک کرنے کیلئے انھوں نے کافی ٹائم  مانگا تھا ۔ ہم نے شیخی بکھرنے کیلئے تہمارے مُلک میں عقل کی کمی ہوگی ۔ یہ سننا تھا کے سومو پہلوان کو طیش آگیا پہلے تو آُس نے خبردار کیا پھر ہماری کلاس میں کوئی کمی نہیں چھوڑی "دیکھو  میں ایک چھوٹے مُلک سے تعلق رکھتی ہوں ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے ہمارے پاس زمین تھوڑی ہے پر ہمارے پاس لوگ پڑھے لکھے ہیں وہ جانتے ہیں انھوں نے کیا کرنا ہے ۔ میرے مُلک کے لوگ اچھے ہیں ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں آخری جملہ اُس نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور زور دے کر کہا "  سوموپہلوان نے ایک بہت بڑی بات کہہ دی تھی جو کانوں کے پردوں سے گزرتی دماغ پر ایک ضرب لگا گئی تھی ، پھر پوچھ ڈالا تم کب آرہے ہوسنگاپور میں نے کہہ دیکھو جب موقع ملا جب بھی آنا مجھے بتانا میں تمیں اپنا مُلک دیکھاوں گئی ۔ سوموپہلوان تو چلا گیا لیکن مجھے تھوڑا سوچنے پر مجبور کر دیا ہم لوگ کتنی آسانی سے اپنے مُلک کے بارے بُرائیاں کرتے ہیں اور اکثر اوقات اُس کی بُرائی کرنے میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جو ہمارے مُلک کیلئے تو کسی صورت میں بہتر نہیں اور ہمارے لیے بذات خود جو کسی دوسرے مُلک میں اجنبیوں سی زندگی گزار رہے ہیں ۔ اگر ہم کچھ اچھا نہیں کرسکتے تو کم از کم جو بُرائیاں ہو رہی ہیں اُن کا چرچا سرے عام نہ کریں ۔
   مجھے احساس ہو رہا  تھا میں نے غلطی کر دی منہ کھولنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا اسلیئے سیانے کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو ۔سومو شاید ناراض ہو کر گئی تھی مجھے اُمید تھی کے اگلے دو ہفتے تک اُس کا موڈ ٹھیک نہیں ہو گا لیکن میرا خیال غلط نکلا جب اگلے دن سومو نے مجھے زبردستی گاڑی میں بٹھایا اور ایک بڑے کیفے کے سامنے گاڑی کی بریک لگی ہم کُرسیوں پر بیٹھے شاندار 
 کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے جب سومو نے پوچھا تم میری کل والی بات سے ناراض تو نہیں ؟  "نو "میں نے مختصر جواب دیا اِس سے مختصر صرف مُنڈی ہل سکتی تھی جو میں نے مناسب نا سمجھا کل والی باتوں سے میں تھوڑا سوچ سمجھ کر اور مختصر بات کرنا چاہتا تھا ۔ تاکہ پھر کوئی غلطی نہ کر دوں حالاںکہ معذرت والی  بات مجھے کہنی چاہیے تھی ۔
سومو نے کافی کا کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا " مجھے لاہور جانا ہے "میرا کافی سے بھراہوا گھونٹ قریب قریب حلق میں اٹک گیا ۔ کیا لاہور کیوں مجھے لاہور دیکھنا ہے باڈشہی موسک اور کیسٹل اور اسلامآباد جانا ہے اُس نے اپنی کافی کا کپ میز پر رکھتے ہوئے بولا  لیکن میں چاہتی ہوں تم جب جاومیں بھی تمہارے ساتھ  چلوں تو تم کب جا رہے ہو ۔۔ مجھے تو چھٹی نہیں ہے شاید اگلے سال لیکن تم کیوں وہاں جانا چاہتی ہو؟ وہاں سکیورٹی ایشو ہیں اور بڑے مسائل ہیں ۔۔ تم ساتھ ہو گئے تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا اور تمہارا بھائی بھی تو وہیں ہے نہ ،تم وہاں کے رہنے والے ہو اور تم مجھ سے زیادہ ڈرےہوئے ہو ۔ میں ڈرا نہیں مجھے تمہاری فکر تم میری اچھی دوست ہو میں نہیں چاہتا تمہیں کوئی پریشانی ہو ۔۔ مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوگئی اُس نے اپنا فائنل فیصلہ سناتے ہوئے کہا ، بس جب تم نے جانا ہو مجھے دو مہینے پہلے بتا دینا تاکہ میں اپنے آفس کے سارے کام نپٹالوں ۔۔ پھر میں آرام سے پاکستان گھوم سکوں دیکھو سکوں لوگ کیسے رہتے ہیں کیا کرتے ، تمہارے مُلک کی عورتیں کیسی ہیں ، خاندانی سسٹم  کیسے کام کرتا ہے  مجھے یہ سب دیکھنا ہے اور میرا خیال ہے تمہیں تمہارے سوال کا جواب بھی مل گیا ۔
 وہ یہ سب دیکھنا چاہتی تھی اور میں حیرانی سے اُسے دیکھ رہا تھا ۔اب سومو پاکستان جانے کیلئے بلکل تیار بیٹھی ہے اور اُس کی فلائٹ کسی بھی وقت لاہور انٹرنیشل  ائیرپورٹ پر اُتر سکتی ہے ۔۔ 
اور آنے والا وقت میری تازہ حب الوطنی کا جنازہ نکال سکتا ہے