-->

20 اکتوبر، 2013

بادشاہ اوے بادشاہ

(مہمان لکھاری ) 

بادشاہ  ااکبر اپنے وزیر  بیربل کے ساتھ شاہی باغ میں ٹہل رہا تھا ۔بادشاہ نے کہا بیربل تمہیں پتا ہے ہمیں شاہی باغ کی اس نرم  گھاس پر چل کر کتنی راحت ملتی
 ہے ،تم بتاو تمہیں کیسے راحت ملتی ہے ؟ بیربل بادشاہ سلامت اس میں کوئی شک نہیں کے کھلی ہوا  میں آکر بندہ تروتازہ ہو جاتا ہے پر اگر بندے کی اپنی ہوا بند ہو تو یہ کھلی ہوا بھی اُسے کچھ زیادہ راحت نہیں دیتی ،کیا مطلب ہے تمہارابادشاہ نے بیربل کو گھورتے ہوئے پوچھا ؟ بادشاہ سلامت غصہ نہ کرکیجئے،مجھے تو رفع حاجت کے بعد راحت ملتی ہے ۔ بیربل بادشاہ گرجا یہ کیا بیہودگی ہے باخداتم ہمارے وزیر نہ ہوتے تو تمہارا سر قلم کرو ا دیتے ۔اب تمہاری سزابس اتنی ہے کےتمہیں گھنگروباندھ کر   جلتے انگاروں پرچلنا ہے تا کہ  تمہارا مجرا سارا  دربار  دیکھے  ۔بادشاہ سلامت مجھے جو اچھا لگتا ہے میں نے کہہ دیاآپ کو باغ میں سکون ملتا ہے ،مجھے  راحت اُس کام سے فراغت کے بعد ملتی ہے ۔  ہماری نظروں سے دور ہو جاو اور ہمیں کل صبح دربار لگنے سے پہلے شکل مت دیکھانا بادشاہ نے آخری حکم سنایا۔
بیربل دل میں سوچتے ہوئے اچھا بادشاہ تو میرے نال چنگی نہیں کیتی سویرے تینوں داسنا سواد۔
بیربل سیدھا اپنے شاہی حلوائی کے پاس گیا اُور اُسے کچھ ہدایت دی ۔اور ایک پُڑیا  اُس کے حوالے کی ۔
کل دوپہر سرکاری دعوت تھی بادشاہ اپنے مسند پر بیٹھے ۔مہمانوں سے مل رہا تھا بیربل نے دربار میں حا ضر ہو کر بادشاہ کو سلام کیا بادشاہ کچھ خوش نہیں ہوا بیربل نے اپنے تھیلے سے ایک ڈبہ نکالا اور بادشاہ کو پیش کیا  بادشاہ سلامت آپ کی نظر کرم میں ایک تحفہ لایا ہوں ۔ بادشاہ نے ڈبہ لیا ،کھولا تو اُس کی من پسند مٹھائی بادشاہ سے رہا نہیں گیا اور چند ٹکڑے مٹھائی کے کھا لیے بادشاہ بے شک بیربل تم ہمارے وزیر ہو تم ذہین ہونے کے چیمپین ہو آو ہمارے ساتھ کھڑے ہو جائے اور مہمانوں  کا ہم سے تعارف کرواؤ۔
اب مہمان باری باری آتے اور بادشاہ سے اُن کا تعارف ہوتا ۔ یہ ہیں راجہ صاحب لاہور والے ،یہ ہیں جناب دلی کے سپہ سالار، اچانک بادشاہ نے بیربل کا بازو تھام لیا  ۔ بادشاہ سلامت   کا چہر ہ سرخ ہو رہا تھااور بیربل کے بازو پربادشاہ کے ہاتھ کا دباو بڑھتا جارہا تھا ،دل میں  درد  بادشاہ سلامت   ۔۔نہیں بادشاہ نے بمشکل الفاظ ادا کئے ۔۔بیربل ہمارے پیندے میں گھڑبڑ ہے ہمیں یہ شاہی دعوت چھوڑ کر جانا پڑے گا بادشاہ نے بیربل کے کے کان میں سرگوشی کی ۔بادشاہ سلامت  ایسے کیسے دعوت  چھوڑ کر جا سکتے ہیں سب مہمان دیکھ رہے ہیں ملنے والے قطار بنائے کھڑے ہیں بیربل  نے واپس سرگوشی کی ۔بیربل تم وزیر ہو کوئی بہانہ بنا کچھ کر ہماری سُدھ بدُھ تو کام نہیں کر رہی ہمیں یہاں سے نکالو اس محفل سے دور شاہی حمام تک بس چند گھڑیوں کیلئے ہم وعدہ کرتے ہیں ہم جلدی واپس آجائیں گے ۔ اچھا بادشاہ بیربل بولا  ۔ کل جب میں نے کہا تھا کے رفع حاجت کے بعد مجھے راحت ملتی ہےتو بادشاہ آپ نے دھمکی دی تھی کے میرامجرا پورا دربار دیکھے گا۔ غلطی ہو گی میں سمجھا نہیں بادشاہ میمنایا تو میرا چھوٹا بھائی ،میری جان، میرا چیتا میں تینوں معاف کیتا مینوں پتا تو مینوں جلاب کھلایا پر میں  فیر وی تینوں معا ف کیتا شاہی دھوبی کے سامنے شرمندگی کے خیال سے ہی بادشاہ کے چہرے پر پسینہ آگیا ۔ بادشاہ سلامت پکا آپ نے مجھے معاف کر دیا ۔اور میرا مطلب بھی سمجھ گئے اؤے معاف کیتا میرے پیو ہون جان کڈنی  آ۔بادشاہ  نے آہ بھری ۔۔ چل فیر نس بیربل نے نعرہ    لگایا ۔۔۔دونوں بھاگے بادشاہ آگے بیربل پیچھے   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مصنف
(مُودھا سائیکلوں والاں)

16 اکتوبر، 2013

مثل سگ کوچک (آخری قسط )

  ہفتہ گزر چکا تھا اور شیرو کی صبح اٹھنے سے جان چھوٹی ہوئی تھی اب شیروکی گرمیوں کی چھٹیاں اچھی کٹ رہیں تھیں بس دن میں ایک دو بار بازار کا چکر لگا آئے ایک دو روپے کی ڈنڈی ماری پھر چھٹیوں کے کام کے رجسٹرکالے کئے اور سارا دن مستی ، شام کو چھت پر پتنگوں کا بھر پور نظارہ۔ اِسی طرح کی ایک شام شیرو اپنی دُنیامیں مست چھت پر پتنگوں کے پیچھے بھاگ رہے تھا اُسے پتہ نہیں چلا اوراُسکے سب سے بڑے بھائی صاحب نا جانے کب سے دیوار کی اوٹ سے شیروکو دیکھ رہے تھے وہ ایک دم سے سامنے آئے اور غُصے سے بولے تمہیں سنائی نہیں دیتا امی کب سے تمہیں آوازیں دے رہی ہیں ۔ جاو نیچے ۔ اور شیرو کی  اکلوتی لوٹی ہوئی پتنگ اُس کے ہاتھ سے غصے سے چھین کر  پُرزے پُرزے کر ڈالی شیرو کو بھی غصہ آگیا۔ آپ کو امی کی آواز سنائی دی تھی تو آپ کیوں نے چلے گئے "اچھا ایک تو پتنگوں سے کھیلتے ہو اور پھر زبان بھی چلاتے ہو ۔۔ اِس سے پہلے کے وہ تشدد پر اُتر آتے شیرو وہاں سے بھاگ نکلا ، سیدھا امی کے پیچھے پناہ لی ۔ ایک تووہ شیرو کے سب سے بڑے بھائی تھے دوسرا ابو کےبعد تشدد کا لائسنس صرف اُن کے پاس تھا ۔ بھائی بھی پیچھے پیچھے چھت سے نیچے آئے اور آکر امی سے شکایت کی ۔  شیرو تمہارے ابو نے منع کیا ہے نہ پتنگ بازی اور دوسری فضولیات سے  بدتمیزی وہ بھی بڑے بھائی کے ساتھ وہ میں برداشت نہیں کر سکتی خیال رکھا کرو  ۔۔نہیں تو پیٹو گے۔ شیرو کو یقین تھا امی اُس کو کبھی نہیں ماریں گی ۔
اوراب جاو یہ بالٹی پکڑو اور دودھ لے کر آو ! کیوں ابو دودھ نہیں لا رہے ۔۔ نہیں ایک نئی جگہ سے دودھ لانا ہے امی نے ڈوپٹے کے پلو سے پیسے کھول کر شیرو کے ہاتھ میں دئیے  تم آپا صفیہ کے گھر جاو وہ تمہیں بتائیں گئی کہاں سے لانا ہے ۔۔ اوردیھان سے جانا ۔ شیرو نے منہ بسورتے  ۔۔ بالٹی کو دیکھا دودھ والی بالٹی اور شیروکا ساتھ ایسا ہی تھا جیسے لیڈی ڈیانا اور چارلس کا وہ دونوں ساتھ ہو کر بھی ساتھ نہیں تھے ، لیکن شیروکو یہ اطمینان ہوا کے  گھر سے باہر نکلنے کا موقع ملا دوسرا اِس  کام کیلئے، صبح اُٹھنا نہیں پڑے گا ۔۔
شیرو بالٹی اٹھائے خراماں خراماں چل دئیے آپا صفیہ کے گھر پہنچ کر درواز کھٹ کھٹایا آپا باہر آئی اور ساتھ ہو لیں ، مختلف گلیوں سے گزر کر  قریبی ریلوے لائن پر چل پڑے پندرہ منٹ کی مسافت طے کر کے ریلوے لائن کے قریب ہی بھینسیں بندھی نظرآئیں  آپا صفیہ راستے بھر نصیحتیں کرتی گئیں۔ دیھان سے آناریلوے لائن پر مت چلنا پھر دوپٹا سنبھالتی میدان میں پڑی ایک چار پائی کے قریب پہنچی اور اُس پر بیٹھی اڈھیر عمرعورت سے سلام دُعا کرنے لگی ۔ خالہ یہ لڑکا آئے گا روز اِس کو دودھ دے دینا ۔۔ ہلا ہلا  ہاں دے ددوں گی ۔۔ یہ تیرا لڑکا ہے کِتنا بڑا ہو گیا ۔۔ نہیں خالہ میرا نہیں  ہے میری سہیلی کا ہے ۔۔ ہلا ہلا ۔۔ خالہ نے قریبی برتن سے ڈھکن اٹھایا اور بالٹی آگے کرنے کا اشارہ کیا پھر اُس میں دودھ ڈالا کر فارغ ہو گئی ۔۔ پھر وہ دونوں خواتین کی طرح باتیں کرنے لگی ۔۔ شیروپہلےتو بالٹی اُٹھائے کھڑے رہا، پھر وہاں سے غائب ہوگیا ،جب آدھاگھنٹہ گزر گیا اور چغلیوں کا فرسٹ سیشن ختم ہوا تو آپ صفیہ کی نظرشیرو پرپڑی شیرو تھوڑی دور ہی کھڑی بھینس کے سینگوں کے ساتھ دھینگا مُشتی کر رہا تھا جتنا زور بھینس سینگ چھڑوانے کیلئے لگاتی شیرو بھی اُتنا زور سینگ پکڑنےپر لگاتا ۔۔ آپ صفیہ نے دیکھا تو سر پیٹ لیا اوے شیرو کیا کررہے ہو انسان بنو ٹکر مارے گئی ۔۔ نہیں مارتی آپا اپنی سہیلی بن گئی ہے ۔۔  ادِھر آو ۔۔ شیرو نےبھینس کے سینگ چھوڑے اور ہانپتا ہو آپا صفیہ کے پاس پہنچا ۔۔ بھینس نے بھی سر ہلا کر گلے میں ڈلی گھنٹی بجائی اور خدا کا شکر ادا کیا جان چھوٹی ۔۔  تم گھر نہیں گئے ۔۔ آپ نے بولا ہی نہیں گھر جانے کو ۔۔ اچھا تم جاو گھر آپ نہیں چل رہی میرے ساتھ ؟ نہیں! صفیہ نے جھنجلا کر کہہ ۔۔۔ مجھ خالہ سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔ شیرو  نے بالٹی اُٹھائی بھینس کی طرف رُخ کیا۔ بھینس نےشیرو کو اپنی طرف آتے دیکھا تو الرٹ پوزیشن میں آگئی ۔۔ شیرو نے گزرتے گزرتے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ریلوئے لائن کے درمیانی تختوں پرگھر کی راہ لی ۔۔
 عصر کی نماز کے ساتھ ہی شیروخود ہی  بالٹی پکڑتا امی سے پیسے لیتا  اور ریلوے لائن پر جا نکلتا ریل گاڑیوں کے گزرنے کا انتظار کرتا جب دور سے ریل گاڑی آتی نظر آتی تو فور اپنی جیب سے پانچ پیسے یا دس پیسے کا سکہ نکالتا اور  ریل کی پٹری پر رکھ دیتا  ۔ جب وہ ریل کے پہیوں تلے روند کر ناجانے کس تختے تلے جا گُھستا توآُس کی تلاش کی جاتی  ۔ آخر یہ حال ہو گیا کے شیروکے پاس اصل سے زیادہ چپٹی شکل والے پیسے زیادہ ہوگئے ۔

 وہی گُجروں جیسی بڑی مونچھیں والا سوُلا خالہ کا بیٹا تھا جوبھینسوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ویسے تو جو ایک ہفتہ نہ نہائے وہ گُجر کہلانے کے قابل ہوجاتا ہے لیکن اُس سے ایک خاص گوبر کی بدبو نہیں آتی وہ صرف ایک دم اصلی گُجر سے ہی اٹھتی ہے ۔ سُولا واقعی اصلی گُجر تھا  سیاہ اور چُست جُسے کا مالک بھینسوں کو قریبی چھپڑ پر نہلانے لے جاتا اور اُسی پانی میں خود بھی ڈبکیاں لگاتا ۔۔ بھینس کے اُوپر بیٹھ کر چھپڑ میں گھُستا اور اُسی طرح بڑی شان سے اُسکے اُوپر بیٹھا واپس چھپڑ سے باہر نکلتا بھینس کی دُم اُس کے ہاتھ میں ہوتی جیسے دُم گھماتا بھینس اُس طرف مُڑ جاتی آج کل کی گاڑیوں سے زیادہ پاور فُل
سٹیرنگ تھا ۔ اندھا دُھن بھینسوں کو گالیں دیتا ۔۔ بھینسوں اور اُس کے درمیاں بھی کوئی آجاتا تو آُسے بھی  دیتا ۔۔ خالہ کا بڑا بیٹا آرمی میں حوالدار تھا ۔ سوُلا چاہتا تھا کے وہ بھی آرمی میں چلا جائے پر بڑے بھائی نے سفارش نہیں کی جس کی وجہ سے وہ ہر وقت چڑا رہتا ہر وقت دودھ والی خالہ سے لڑتا رہتا بات بات پر اُلجھتا رہتا ہمیشہ خالہ کوطعنے مرتا خود تو فوج میں چلا گیا مجھے یہاں چھوڑ گیا اِن ڈنگروں کے ساتھ ۔۔
وہ بھی شیرو کی طرح مثل سگ کوچک تھا ۔ اُس کو پنجابی سٹیج ڈراموں سے بہت لگاو تھا، اِس لیے اپنی ساری بھینسوں کے نام ایکٹروں پر رکھے تھے ، نیلی ، نرگس ، صائمہ ، صائمہ کووہ کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دیتا اُس کے سارے کام وہ اپنے ہاتھوں سے کرتا  ، اُس کا نام صائمہ کیوں رکھا تھا یہ ہمیں زندگی کے بہت سے سال گزرنے کے بعد معلوم ہوا ۔ وہ پوچھتا ہاں بھی باو کیسے ہو، کونسا ڈراماں نیا آیا ۔۔ اُس میں کہیں گجر کا ذکرآیا ؟
زندگی ہمیشہ آسان نہیں ہوتی وقت بہت کچھ سکھاتا ہے ۔ جو وقت آپ کو سکھاتا ہے وہ آپ کبھی بھول نہیں پاتے وہ ہاتھ میں کھنچی ہو لکیر کی طرح ہو جاتا ہے جس کو ساری زندگی آپ کے ساتھ ہر پل گزارنا ہے آپ کو وہ تلخ لمحےیاد رکھواتا ہے۔ بچپن سے لڑکپن ایک لمحے کی چنگاری جیسا ہوتا ہے جو ایک دم سے جل کر بجھ جاتا ہے لیکن آپ کے گرد بہت کچھ بدل دیتا ہے ۔۔ اُسی  ریل کی پٹری پر زندگی چل رہی تھی جب ایک دِن شیرو دودھ لینے پہنچا خالہ نے بالٹی میں دُودھ ڈالا جب شیرونے جیب سے پیسے نکالنے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو خالی ہاتھ باہر آیا جیب کو ٹٹولا ہر طرف سے پر پیسے کہیں نہیں ملے خالہ اُس کا منہ تک رہی تھی پوچھا کیا ہوا ؟، خالہ پیسے کہیں گِر گئے کل دے دوں گا ، خالہ مُسکرائی نہیں پتر ہم اُدھار نہیں کرتے بالٹی پکڑی دودھ واپس اپنی بالٹی میں انڈیلا اور خالی بالٹی شیرو کے ہاتھ میں دے دی ۔ شیرو شرم اور ڈر سے مرا جا رہا تھا عجیب کیفیت تھی گھر جائے ، کیسے جائے گا کیا بتا ئے گا۔۔ پوری راستے کی ریل کی پٹری کھنگال ماری کہیں سے اُسے اپنے گِرے ہوئے پیسے واپس مل جائے۔ ایک بار مل جائے آئندہ دھیان رکھوں گا اللہ سے دُعا مانگی کوئی چمتکار کوئی وسیلہ کوئی راستہ پر بے سوُد ، آخر تھک ہار کر ۔۔ اُسی پٹری پر بیٹھ کر سوچنے لگا گھر جا کر جھوٹ بولے گا دودھ ختم ہو گیا ۔۔ پر پیسے کیسے واپس کرے گا ۔ ۔ جب امی پوچھے گئی تو کیا جواب دے گا ؟ اتنی دیر بیٹھا کے مغرب کی اذان کا وقت ہو گیا  اندھیرا بڑھنے لگا ۔اُس دن نہ تو کوئی دُعا قبول ہوئی اور نہ ہی کوئی چمتکار، اب بہت دیر ہو چکی تھی اب جو بھی ہو گا دیکھا جائے گا انسانی فطرت کام آئی جب خوف کا احساس بڑھ جاتا ہے تو یہی ہو تا ہے جو ہو گا دیکھا جائے گا ۔۔ شیرو نے بالٹی اُٹھائی اور گھر کی راہ لی گھر پہنچ کر دیکھا امی باورچی خانہ میں تھی اور اکیلی تھی بالٹی امی کے حوالے کی امی نے جیسے ہی بالٹی ہاتھ میں پکڑی احساس ہو گیا خالی ہے، ڈھکن اُٹھا کر دیکھا واقعی خالی تھی سوائے اُن چند بوندوں کے جو ابھی تک بالٹی کے اندر چمٹی ہوئی تھی  ۔ شیرو دودھ نہیں لائے ۔ وہ امی ۔۔ میں میں ۔۔ جا رہا تھا دودھ لینے ۔۔ تو راستے میں ۔۔۔ پیسے گُم ہو گئے ۔۔ شیرو نے سچ بول دیا ۔۔ امی نے دیکھا ۔۔ چُپ کر گئی ۔۔ شیرو کھڑا رہا ایک مُجرم کی طرح انتظار کرتا رہا ابھی امی غصہ ہونگی ۔۔ شاید ایک دو تھپڑ دیں گی تاکہ آئندہ تمہیں یاد رہے کے زندگی میں چیزیوں کو آسانی سے نہیں کھو دیتے ۔۔ لیکن امی نے کچھ نہیں کہہ ۔۔ بس اتنا کہہ اب یہاں کیوں کھڑے ہو ۔۔ جاو۔۔ امی نے کچھ کہا کیوں نہیں شاید اُس دن ایک لرزش سے شیرو کےدل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ۔۔ اُس کے دل پر ایک پہلی گرہ  لگ گئی تھی ۔۔
صبح آنکھ کھُلی توابا صحن میں کھڑے غصہ ہو رہے تھے ۔۔ صرف ایک جملہ کانوں میں پڑا ۔۔ تمہیں ساری زندگی کوئی کام ڈھنگ سے کرنا نہیں آیا ۔۔ ابا توغصے میں گھرسے باہر نکل گئے ۔۔ شیرو کمرے سے باہر آیا امی کچن کے دروازے پر کھڑی تھی ، شیرو امی کے پاس گیا پوچھا امی کیا ہوا صبح صبح ابا غصہ میں کیوں تھے  ۔ کچھ نہیں ہوا ۔۔ پاس کھڑی بہن سے پوچھا کیا ہوا ۔۔ اُس نے بتایا دودھ خراب ہو گیا ابا کو چائے نہیں ملی اِس لیے غصہ ہو گئے ۔۔ شیرو نے ماں کے چہرے کی طرف دیکھا  اُن کی آنکھوں میں نمی تھی جو شیرو نے دیکھی ۔ محسوس کی وہ آنسو جن کو ڈوپٹے کے پلو سے آنکھیں صاف کرنے کے بہانے سے پونچھ دیا  گیا تھا ۔۔ وہ نمی کہیں شیرو کی آنکھوں میں اٹک گئی تھی ۔۔ یہ وہ نمی تھی جو شیرو کی زندگی میں ہر پل رہنی تھی یہ اُسکی ماں کا زندگی کا پہلا جذباتی تحفہ تھا ۔۔
امی آپ نےایسا کیوں کہا ، ایسا کیوں کیا ،  بیٹے جب تم بڑے ہو جاو گئے یہ بے پروائیاں کرنی چھوڑ دو گے تو پھرایسا کبھی نہیں ہو گا ۔  یہ وقت تمہیں ہمیشہ یاد رہے گا ۔ چھوٹی چھوٹی غلطیاں انسان کو بہت کچھ سکھا دیتی ہیں ۔ جو میں نے کیا وہ ہر ماں کرتی ہے ۔۔ شیرو شرم سے زمین میں دھنسا جا رہا تھا ۔ وہاں سے نکلا تو واپس سیدھا بستر میں   گُھس گیا اور وہ آنکھوں کی نمی دریا بن کر بہہ نکلی تھی ۔ پر من ہلکا نہیں ہو رہا تھا،

 دوسرے دن جب بالٹی اُٹھائے اُسی پٹری پرچلتے چلتے جیب میں رکھے پیسوں کو اتنی مضبوطی سے تھاما تھا کے مُٹھی میں پسینہ آگیا تھا لیکن پیسوں کے کھو جانے کے ڈر سے وہ مُٹھی منزل پر پہنچ جانے پر ہی کُھلی ۔
 سکول کُھل چُکے تھے پر دل پر لگی گرہ نہیں کُھل رہی تھی ۔۔ سکول جاتے وقت ملنے والا ایک روپیہ جب تفریح کے وقت جیب سے نکل پر ہتھیلی پر آیا تو ایک جنون نے جنم لیا یہ پیسے جوڑے جا سکتے ہیں اگر میں اپناایک روپیہ جوڑوں تو ڈیڈھ مہینہ میں پیسے پورے ہو سکتے ہیں یہ سوچ کر وہ روپیہ واپس جیب میں رکھا اور قریبی نلکے کا پانی پی کر شیرو واپس کلاس میں چلا گیا ۔ جب کوئی جنوں جنم لیتا ہے تو اُس کے صرف دو راستے ہوتے ہیں یاں تو منزل ملے گی یاں وہ فنا ہو گا،  لوئر مڈل کلاس کے گھرانوں میں خرچ پورا پورا ہوتا ہے ۔ جب شیروکے ابا گن کر پورے پیسے امی کی ہتھیلی پرر کھتے تو حساب بھی پورا ہوتا تھا ۔ ممکن ہی نہیں تھا کے اُس سے زائد کے اخراجات کئیے جائیں ۔
ہر روز ایک ایک سے ایک روپیہ جڑتا گیا ہر روز شیرو اُس بھٹے والی کی ریڑھی کے قریب پہنچتا، جو اُس کو سب سے پسند تھا  بھُٹہ جب گرم گرم راکھ سے نکل کرمصالےوالے لیموں کے رس کے ساتھ رگڑ کھاتا تو منہ میں پانی بھر آتا، بھٹے والا اُس کا دل للچانے کیلئے زور سے آواز دیتا ، "گرم چھلی " گرم گرم    جیب میں ہاتھ ڈالتا پر وہ جنون اُسے روک دیتا ۔۔ وہی قریبی نلکے کا پانی پیتا ، پر آنکھوں میں نمی کیوں آجاتی ۔ لیکن کیوں کچھ غلط تو نہیں تھا۔ یہ اُس کی سزا تھی اِیسی سزا جو اُس نے خود چُنی تھی کسی نے اُس کو دی نہیں تھی ۔ اگر شیرو کو اُس دن ایک تھپڑ پڑ جاتا یاں لرزش ہو جاتی تو شاید یہ جنوں جنم نہ لیتا ۔۔ یہ احساس پیدا نہ ہوتا ۔۔ اُس کو چیزوں کی اہمیت کا احساس نہ ہوتا ۔
آج ریل کی پٹری پر شیرو فرلانگیں بھرتا جا رہا تھا ایک ایک لکڑی کے تختے پر زور سے پاوں رکھتا ،تیز تیز پاوں چلاتا
 جلدی جلدی دودھ لے کر گھر جانا چاہتا تھا آج جنوں کی تکمیل کا دن تھا ۔پر کیا پتا یہ ریل کی پٹری اُسے کہاں تک لے جاسکتی تھی اُسے کیا پتا یہ پٹری اُسے ایک دن راولپنڈی تک لے جائے گی جہاں کوئی اُس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ایک نئے جنوں کو جنم دے گا اُسے کیا پتا تھا راستے میں ایک کھٹالہ اسٹیشن بھی آتا ہے جہاں یک لخت سے ایک پٹری دوسری سے الگ ہو جاتی ہیں جیسے وہ ایک دوسرے کو جانتی ہی نہیں ،
دودھ لاتے راستے میں ایک دووکان سے پیتالیس روپے کے سکوں کے روپے بنانے کے بعد سیدھا گھر پہنچتے ہی باروچی خانہ میں کھڑی امی  کے پاس بالٹی زمین پر رکھ کر امی کے ڈوپٹے کا پلو پکڑا اور جیب سے پیسے نکال کر اِس میں باندھ دئیے امی نے پوچھا شیرو کیا کر رہے ہو یہ کیا ہے ، امی نے ڈوپٹے سے بندھی گرہ دیکھتی تو حیرانی سے پھر پوچھا یہ کیا ہے ، کھول کر دیکھ لو ، امی نے گرہ کھولی یہ پیسے کہاں سے آئے شیرو نے کچھ نہ کہا مُسکرایا ، بس آگئے ، میں نے پوچھا یہ پیسے کہاں سے آئے امی کے چہرے کا رنگ بدل گیا  ، شیرو خاموش رہا بس مسُکرا رہا تھا ابھی امی اُس کو شاباش دیں گی ۔ امی نے تیسری بار دانت پیستے ہوئے پوچھا یہ پیسے کہاں سے آئے ۔۔؟ پھر ایک زناٹے دار تھپڑ شیرو کی گال پر پڑا ، شیرو اِس ردعمل کیلئے تیار نہیں تھا وہ تو خوش تھا آج امی بہت خوش ہونگی پر یہ کیسی خوشی ہے شیرو کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے تھپڑپڑنے سے اُس کا کان سائیاں سائیاں کر رہا تھا ، ابھی ایک تھپڑ کا درد سہہ نہیں پایا تھا کے ایک اور تھپڑ اُس کی گال پر پڑا ، یہ امی کو کیا ہو گیا امی نے تو اُس کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا پر آج یہ نفرت کی بارش کیوں ، تم نے چوری کی امی دھاڑیں ۔ شیرو بتاو یہ پیسے کہاں سے آئے نہیں تو میں آج تم کو جان سے مار دو گی۔امی میں نے چوری نہیں کی ۔ ۔قسم میں نے چوری نہیں شیرو روتے روتے رندی آواز میں بولا ۔۔ تو پھر یہ پیسے کہاں سے آئے ، امی میں نے اکھٹے کئے ییں آخر امی کو سچ بتا نا پڑا جو شیرو کہنا نہیں چاہتا تھا پر کہنا پڑا امی کا اُٹھا ہو ہاتھ ہوا میں رُک گیا ۔۔ کیوں تم نے پیسے اکھٹے کئے کس چیز کا قرض اُتارنا چاہتے تھے تم اَن باتوں کا شیرو کو کوئی علم نہیں تھا یہ بہت بڑی باتیں تھی، سچ سن کر  امی کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا  ۔۔ امی نے روتے شیرو کو گلے لگا لیا ۔ تو تم نے روپے اکھٹے کرنے کیلئے سکول میں تفریح کے وقت کچھ نہیں کھایا اپنا پسندیدہ بُھٹہ بھی نہیں  شیرو تم میرے جذباتی بیٹے ہو مجھے ڈر لگتا ہے یہ دُنیا تمہیں روندھ ڈالے گئی ،شیرو زندگی کی حقیقتوں کو سمجھو یہ زندگی کے قرض ہیں یہ پیسوں سے نہیں اُتارے جاتے میرے بچے رشتوں کی اہمیت کو سمجھو ، جذبات کو سنبھالو ۔۔ جذبات کی رو میں بہہ مت جایا کرو ۔ امی کی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے ۔ پر شیرو اپنا جنوں پورا کر گیا تھا اُس کا من آج سے ہلکا تھا ۔۔





10 اکتوبر، 2013

مثل سگ کوچک (قسط 2)

پُرانے دودھ والے کی چھُٹی ہوچکی تھی " اور ہمیں صبح سویرے اُٹھ  ، اُٹھ کر چھٹی کا دودھ یاد آگیا تھا ۔  ہر صبح ہمیں اٹھنا پڑتا وہ ہی منہ بسورتےسر کُھجاتے روز سونے سے پہلے ہماری دُعا ہوتی صبح اُٹھنا نہ پڑے صبح بیداری کا خوف رات سے ہی شروع ہو جاتا شکر ہےاُس عمر میں ہم نے خواب دیکھنے شروع نہیں کیے تھے ورنہ ہم خواب میں محبوبہ کو پھول کی جگہ بالٹی پکڑا دیتے۔ اس دودھ کی حالت پہلے والے سے بھی پتلی تھی لیکن کسی نے نعرہ حق بلند نہ کیا ابا ڈی جنھہوں نے دودھ کے پتلا ہونے کا سب سے زیادہ ہنگامہ کیا تھا وہ بھی خاموشی سے چائے پیتے اور کام پر نکل جاتے ۔ ہم دل ہی دل میں کڑھتے ابا ڈی اب کیوں نہیں بولتے ؟۔  ہم کوئی ترکیب ڈھونڈ رہے تھے کے اِس عمل مسلسل سے جان چھوٹ جائے بیماری کا بہانہ نہیں کر سکتے تھے ۔ کیونکہ بیماری کا بہانے کرنے سے دیگر پابندیاں لگ سکتی تھیں۔ آخر ہمارے چھوٹے سے شیطانی دماغ نے مسلئے کا حل ڈھونڈ نکالا ۔ ایک ہمارے بڑے بھائی  جن کو کھانےکی چیزوں میں اکثر نقص نکالنے کی پیدائشی عادت تھی اگرچائے میں الائچی نہیں ڈالی ، یاں دال کا تڑکا ٹھیک نہیں لگا، گوشت ٹھیک نہیں پکا اِس میں ہیک آتی ہے کوئی چیز باسی ہو گئی ہے تو اُس کے خصائص بھائی صاحب ہی ٹھیک ٹھیک بتاتے تھے اُن کے سونگھنے کی حس بڑی تیز تھی ، ہم نے اُن کو استعمال کرنے کی ٹھانی وہی دودھ دہی جو ایک مہینہ ہوا  آرہا  تھا اور کوئی آواز بلند نہیں کر رہا تھا کے یہ دودھ پتلا ہے یا دہی ٹھیک نہیں اور ہمارے تیز ناک والے بھائی صاحب بھی خاموش تھے۔ایک دِن ہم صبح ناشتےکے ٹائم پر جا پہنچے سب دیکھ رہے تھے جناب محترم شیرو صاحب آج صبح صبح ہم کسی پر دھیان دئیے بغیر امی کی بغل میں جا بیٹھے پلیٹ پکڑی دہی میں چینی ڈال کر کھانا شروع کیا دو چار چمچ کھانے کے بعد ہم نے ساتھ بیٹھے بھائی سے سرگوشی کی بھائی دہی ٹھیک نہیں ہے اِس میں بدبو ہے تمہیں نہیں آئی اُس کا دہی کھاتا ہاتھ رُک گیا چمچ ہوامیں تھا اور منہ کُھلا ہوا ۔۔  وہ وہی چمچ ناک کے قریب لے گیا اُس کو سونگھا  " نہیں  ٹھیک ہے "  اور پھر سے دہی کھانا شروع کر دیا ۔ ہم بھی بضید ہو گئے ہے یار کچھ ہے اِس میں پھر سونگھو اِس کو اُس نے پھر سونگھا جواب پھر منفی آیا ، اب ہم نے منہ ایسا پُھولایا ، جیسے قے آرہی ہو اور بھاگے باتھ روم کی طرف اور جتنا زور لگا سکتے تھے ہم نے زور زور سے قے کی ، ہمیں پورا یقین تھا امی بھاگتی آئیں گئی ۔ پر ہماری قسمت خراب  ساتھ والے کمرے سے اباڈی بھاگے آئے اور ہمارا سر پکڑا لیکن جب اُنھوں نے واش بیسن دیکھا کے خالی ہے اور کوئی ڈرامہ ہو رہا تو آُن کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی جب ہم فارغ ہوئے تو انھوں نے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اپنےکمرے میں آکر انھوں نے الماری  سے چورن جیسی چیز نکالی اور ہمارے منہ میں انڈیل دی ۔ اور ہمیں کِسکنے کا اشارہ کر دیا ، ہم چاہ رہے تھے ہمیں پوچھا جائے کیا ہوا اور ہم دل کھول کر اِس دودھ دہی کی بُرائی کریں ، پر ابا ڈی نےکچھ پوچھ ہی نہیں ہم نے ایکٹینگ کرنے کی پوری کوشش کی مریل سا چل کے بھی دیکھایا پر بے سود ،

ہم واپس باورچی خانہ میں آگئے اور دہی کی پلیٹ کو پیچھے کیا ۔ امی سے بولا امی آملیٹ بنا دو میں پراٹھا کے ساتھ کھاوں گا ، جی بیٹا بنا دیتی ہوں پر یہ بتاو یہ تم بھاگ کر باتھ روم میں کیوں گئے تھے،  کیا ہوا تمہیں ، لو جی ہم شروع ہو گئے امی دہی ٹھیک نہیں ہے میں نے کھایا مجھے قےہوئی تھی اتنی بڑی پورا واش بیسن بھر گیا ساتھ بیٹھے منجھلے بھائی نے لقمہ دیا اوئے گندے انسان تجھے کب عقل آئے گی۔۔؟ دیکھ تو لے ساتھ میں کوئی کھا رہا ہوتا تو صبح صبح اُلٹیوں کی بات کر رہا ہے  ہم نے بھائی کی بات سنی ان سنی کر کےاپنی  بات جاری رکھی   پھرابو آئے انھوں نے مجھے اُلٹی کروائی اور ساتھ دوائی بھی دی ، امی ہماری ایمرجنسی بیماری پر حیران ہو رہی تھی کے اتنا جلدی قے کر کے ابو سے دوائی لے کر واپس بھی آگیا اور اب انڈا اور پراٹھا مانگ رہا ہے ۔  منجھلا بولا امی اِس کومت دو اس کی طبعیت خراب ہے اِس کو صرف چائے اور پاپے کھانے دیں آج ، نہیں تو پھر قے (اُلٹی ) کر دے گا ۔۔ ہم نے لاکھ کہا امی نہیں کروں گا اب نہیں آئے گئی ۔ لیکن امی نے دو پاپے اور چائے کی پیالی ہاتھ میں تھما دی ۔ منجھلے نے ہماری طرف دیکھ کر ایک آنکھ دبائی ہونٹ گول کر کے ہوامیں پپی پھینکی ،  ہم صرف صبر اور چائے کا گھونٹ پی کر رہ گئے ۔۔ اورہمیں محسوس ہوا مثل سگ کوچک

، تیرہ چودہ  سال کی عمر بڑی عجیب ہوتی ہے آپ نہ تو بڑوں میں شمار ہوتے ہیں نہ چھوٹوں میں آپ نہ تین کے رہتے ہیں نہ تیرا کے ہم جب بڑے بھائیوں کے کمرے میں جاتے تو وہاں چھوٹے سمجھے جاتے پہلے ہمیں دیکھ کر خاموشی ہو جاتی پھر دو چار منٹ کے بعد ہم سے پوچھا جاتا ہاں کیا کام ہے ، نہیں میں تو بس ایسے ہی آگیا ، چل جا کوئی اور کام کر یہاں تیرا کوئی کام نہیں ہے ۔ وہاں سے دھتکارے جاتے تو باجی کے کمرے آجاتے باجی پہلے تو دیکھتی یہ کدھر وہی  دو چار کی منٹ کی خاموشی کے بعد وہ بھی پوچھ لیتی کیا ہے ، نہیں میں تو بس ویسے ہی ، جاو جا کے لڑکوں میں بیٹھو ، یہاں تمہارا کیا کام  ہے؟ ہم وہاں سے دفعہ کئیے جاتے تو امی کے پاس آتے امی کسی ہمسائی سے گفتگو میں مشغول ہوتیں پہلے تو ہمیں دیکھتی آنکھوں کے اشارے سے سمجھنے کی کوشش کرتی پھر بہانے سے کوئی کام کہتی جاو باجی کو بولو آپا صفیہ آئی ہیں چائے بناو ، ہم باجی کو بتا کر پھر واپس آدھمکتے آخر تنگ آکر کہہ دیتی شیرو جاو بیٹا باہر جا کر کھیلو ، یہاں کیوں بیٹھے ہو۔؟   تمہارا یہاں کیا کام ہے ۔  ہمارے عقل سے پیدل  دماغ کو سمجھ نہیں آتی تھی کے آخر ہمارا کام کس کمرے میں ہے وہاں سے نکالے جانے کے بعد اور کوئی جگہ بچتی نہیں تھی صرف ایک کمراتھا جہاں ابا ڈی بیٹھتے تھے وہاں سے ہم ہمیشہ گولی کی طرح گزرتے تھے ۔ آخر کار ہمیں چھت پر جا کر آسمان پر اُڑتی پتنگیں گننی پڑتی کیوں کے پتنگ بازی پر بڑی سخت پابندی اگر ڈور یاں پتنگ برآمد ہوتی تو ایسی دھُلائی ہوتی کے صابن بھی نہیں لگتا تھا اور کوئی داغ بھی نہیں بچتا تھا ۔
ایک صبح انہونی ہو گئی رات کو ہم سوئے تو صبح کسی نے اُٹھایا نہیں ،  صبح نیم بہوشی کی حالت میں ہمیں احساس ہوا ہم یاں تو اپنے گھر میں نہیں یاں وفات پا چکے ہیں ، ڈرتے ڈرتے اِدھر اُدھر نظریں گھمائیں ، کمرے میں اندھیرا تھا۔  ہمیں لگا لو بھی پہنچ کے قبرمیں ، گھر والوں نے بھی بڑی جلدی جان چھڑوالی کم از کم ہمیں لپٹنے رونے کا منظر تو دیکھنے دیتے بڑے ظالم  ہیں اور فرشتے قبرکےکسی کونے کھانچے میں ہمارے اٹھنے کا انتظار کر رہے ہونگے۔   اور ہمارے اٹھتے ہی فرشتے حساب کتاب مانگ لیں گے ،حساب دے جو روز امانت میں خیانت کرتا ہے دودھ دہی میں ایک روپیہ اور پھر سوداسلف میں بھی ڈنڈی مارتا ہے۔۔ اور کلمہ بھی سنے گا ۔۔اگر نہ آیا تو پھر ایک زور دار گُرز گھمائے گا ، اور دے گا ہمارے سر پر۔۔ اِس خیال کے آتے ہی ہم نے اپنی ساری بچی کھُچی توانائی اکھٹی کی آوازبلند کلمے کا وِرد کیا اور چادر ایک طرف پھینکی اور کمرے کا دروازہ دھڑم سے کھولا صحن میں بھاگے ۔

 باہر باجی صحن دھو رہی تھی گیلے فرش پر قدم پڑتے ہی ہم بُری طرح لڑکھڑائے  پھسلےاور سیدھےباجی سے جا ٹکرائے باجی اور ہم دونوں چاروں شانے چت کر گئے ۔ ابھی ہم ٹھیک سے اُٹھے بھی نہیں پائے تھے اور سمجھنے کی کوشش کررہے تھے ، ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے ۔ایک زن کی آواز کےساتھ گیلا جھاڑو ہمارے سرپر پڑا ، ہماری آتی  ہوش بھی جاتی رہی  اُس کے بعد دو  چار روائتی گالیاں ، کتُے ، کمینہ انسان ۔ پنجابیوں کو ٹھنڈ نہیں پڑتی جب تک وہ گالیاں نہ دیں لیں اُن کی لڑائی اُن کی محبت بِنا گالیوں کے ادھوری رہتی ۔ شرم نہیں آتی ایسے بھونڈے مذاق کرتے باجی غصے سے سُرخ ہورہی تھی اُن کے سارے کپڑے گیلے ہو گئے تھے پانی کی پوری بالٹی اُن کے اوپر گر گئی تھی ۔ لیکن پھر بھی غصہ باقی تھا ۔ دو چار جھاڑومزید رسید کرنےکے بعد کچھ غصہ ٹھنڈاہوا ۔  ہم تھوڑے ہوش میں آئے دیکھا تو ہنسی نکل گئی۔ باجی بھیگی بلی ۔ کی طرح پنجے جھاڑ رہی تھیں ۔ ہماری ہنسی برداشت نہ ہوئی اورزناٹے دار جھاڑوں کا ایک اور دور شروع ہوا ۔ امی یہ دھما چوکڑی  سن کر کچن سےباہرآئیں۔ باجی ہمارے سرپر دھڑا دھڑ جھاڑو برسا رہی تھی اور ہم سر ہاتھوں میں دئیے بچاو کی ناکام کوشش کرتے کھی کھی کر رہے تھے ۔ اُس وقت ہاتھ رُکا جب امی نے باجی غصے سے رُکنے کا کہا ، امی دیکھیں نہ یہ کیا کیا سارے کپڑے خراب کر دئیے اور پھر مجھے دیکھ کر کھی کھی کر رہا ہے ۔  شیرو یہ کیا بدتمیزی ہے کیوں بہن پر پانی پھینکا  اورگیلے فرش پر صبح صبح کیوں بیٹھے ہو ؟  اب امی کو کیا بتائیں ہمارے ساتھ کیا بیتی فرشتوں کے گُرزوں سے بچ کر بھاگے لیکن جھاڑو نے گُرزوں والا کام کیا ہم نے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا ،سزا کے طور پرہمیں باجی کے ساتھ سارے گھر کی صفائی میں ہاتھ بٹانا پڑاسارے صحن میں وائپر دینا پڑا ۔ جو ہمیں قبول کرنا ہی پڑاکیوں کے اور کوئی چارہ نہیں نہیں تھا باجی ہمیں سپروائز کر رہی تھی اور وہاں وہاں سے صفائی کروارہی تھی جاں انھوں نے کبھی خود بھی نہیں کی تھی  ہماری ننھی سی جان وائپرچلا چلا کر
ہلکان ہو رہی تھی ۔ خود کو کوس رہے تھے کیوں بھاگے شاید فرشتے اِس سے اچھا سلوک کرتے۔

صبح صبح خاطر تواضع کروانے اوراس کی سزا بھگتنے کے بعد ہم کچن میں امی کے پاس آئے ۔ امی آج آپ نے اٹھایا  نہیں آج دودھ نہیں تھا لانا ؟ نہیں بیٹا آج سے تمہارے ابو  لے آیا کریں گے ، اب تم آرام سے صبح سوتے رہنا، امی کے یہ الفاظ سُن کر ہم خوشی سے جھوم اٹھے، ہمارا دل کر رہا تھا ہم بھنگڑا ڈالیں لیکن سر صبح کی مرمت سے ڈول رہا تھا اگر ہم ڈال بھی لیتے تو چھوٹے سے کچن میں سارے برتن گر جانے تھے اور ہماری پھر کمبختی شروع ہو جانی تھی  ہماری خوشیاں دیر پا نہیں ہوتی تھی اگلے ہی لمحے ہمارے کمینے دماغ نے الارم دیا !   ایک روپے کی ڈنڈی نہیں لگے گی اِس صورت حال میں شدید مالی بحران آسکتا ہے ، یہ سوچ کر ہم تھوڑا دل شکستہ ہو گئے ۔

جاری ہے۔

6 اکتوبر، 2013

مثل سگ کوچک

متوسط طبقہ کےپنجابیوں کے گھروں میں دودھ دہی کا بڑا گھمگھیر مسلئہ ہوتا ہے خاندان بڑاہوا تو سب سے چھوٹاہونا مثِل سِگ کوچک ہوتا ہے سردی ہو یاں گرمیاں لسی اور چائے دونوں کیلئے گھرمیں دودھ اور دہی کی ضرورت پڑتی ہے۔ گھر میں سب سے چھوٹے اور مثل سگ کوچک ہم ہی تھے، صبح سویر ایک عدد ٹانگ ہماری تشریف پر پڑتی تھی ہم بمشکل رات کودو ڈھائی بجے سوتے تھے کوئی کام نہیں ہوتا تھا بس نئے نئے کمپیوٹر کوشوقین ٹھہرے  56کے بی ، کے انٹرنیٹ پر سفر کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا پوری رات چاہیے یہ تو ہماری شرافت تھی کے دو ڈھائی بجے سے تین بجے تک سو جاتے تھے مستانہ کے سنہری اصولوں پر کے سونا گھر آکے اپنے بستر پر  لیکن پھر بھی ہماری محنت کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ۔ بلکہ ہمیں سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا ،صبح جب امی صحن سے آواز دیتی شیرو اُٹھو دودھ دہی لے آو ہم سے پہلے وہ آواز ساتھ سوئے بھائی کے کانوں میں  پہلے پہنچ جاتی  وہ ہم سے پہلے اُٹھے ہوتے تھے لیکن ! وہ صرف ٹانگ چلانے پر افاقہ کرتے بڑا ہونے کا پورا حق ادا کرتے  اگر ایک ٹانگ سے کام نہیں چلا تو پھر مزید دوچارہاتھ چلا دیتے اگرچہ ہم نے ڈھیٹ ہونا ثابت کر دیا تو امی کا انتظار کیا جاتا کے امی خود کمرے میں آ کر ہم کو جگائیں اگرامی بھی ہلا جلا کر تھک جاتی تو اور ہم ڈھیٹوں میں نام پیدا کر کے زبردستی آنکھیں بند کرے پڑے رہتے تو اگلا لمحہ بڑا مشکل ہوتا فیر سیدھا ابا ڈی(جی) ہماری ڈی میں گھُس کر اتنے گول کرتے کے ہمیں صبح صبح تارے نظر آجاتے اِس لیے جب امی تھک ہارکرکمرے سے باہر نکلنے لگتی تو ہماری آواز نکل ہی آتی آُٹھ گیا کیوں کے اگلا مراحلہ صرف پرُتشدد ہی ہوسکتا تھا ۔ منہ کبھی دھویا کبھی نہ دھویا ۔ سرکُجاتے اور آباسیاں لیتے ہم کمرے سے باہرتشریف لاتے تو ایک عدد بالٹی صحن میں ہماری منتظر ہوتی دل کرتا تھا اِس کو ایک ایسی کِک مارے کے یہ واپس باورچی خانہ میں پہنچ جائے لیکن ابا ڈی اپنے کمرے کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھ رہے ہوتے تھے اِس لیے ایسی حرکت مُضر صحت تھی ۔ 
امی نے آرڈر دیا گولی کی طرح جاو اور کارتوس کی طرح واپس آو کل سے دُودھ والا نہیں آ یا تمہارے ابو نے چائے پینی ہے اور تیرے بھائی نے لسی بھی پینی ہے ، ہم تھوڑا احتجاج کرتے کے بھائی کو کیوں نے کہتی آپ بیٹا وہ بڑا ہو گیاہے نہ وہ بالٹی نہیں اٹھا سکتا۔ محلہ سے گزرتے اُس کی عزت میں فرق پڑتا ہے ۔ تو میری عزت نہیں ہے محلے میں ہم پُر امن احتجاج کرتے ماں سے تو کر سکتے تھے البتہ جب احتجاج لمبا ہو جاتا تو ایک گلا صاف کرنے کی کھنکار ہمیں گولی کارتوس بننے پر مجبور کر دیتی   ۔۔ 
جب دودھ اور دہی کی نہریں بہہ جاتی اورہم تھک ہار کر واپس بستر میں گھُس جاتے تو بھائیوں کے اُٹھنے کا وقت ہو جاتا وہ سب ایک ایک کر کے صحن میں آجاتے کوئی چائے کاکپ کوئی لسی ایک ہنگامہ شور مچ جاتا منجھلا چاٹی میں دہی ڈالے گڑا گڑ رڑک  رہا ہوتا امی گرماگرما پراٹھے بنا کر سب کو دیتی جاتیں ۔ سب بُری آواز اُس چاٹی سے اُٹھتی جس میں لسی رڑکی جاتی پر ہم مجبور تھے مثلِ سگ کوچک ۔  جب یہ ناشتے کو طوفان تھمتا تو تھوڑی خاموشی ہوتی لیکن ابھی ہم نیند کی ٹرین پکڑنے کی کوشش کر ہی رہے ہوتے سمجھو پائیدان پر پاوں رکھ کر لٹکتے ہی کے منجھلے بھائی آن دھمکتے ، آ ہا صاحب سو رہے ہیں اُٹھ اوئے ۔۔ سکول نہیں جانا ۔۔  ہم منہ  چادر سے باہر نکالتے یار کون ساسکول ، سکول میں چھٹیاں ہیں بھائی ، او اچھا میں تو بھوُل ہی گیا چل اُٹھ فیر بھی کرکٹ کھیلتے ہیں ۔ جب تک ہم کوئی نہ کوئی بہانا بنا کر ٹال نہ دیتے جان نہیں چھوٹتی ۔ ایک بار پھر ہم نیند کی ٹرین پکڑنی کی کوشش کرتے تو امی آجاتیں اُٹھوناشہ کر لو پھر بازار سے سامان لے کر آنا ہے ، امی بھائی کو بولا نہ میں ابھی سامان لے کر آیا ہوں نہ ہم احتجاج کرتے ، وہ سامان اچھا نہیں لاتا اُس کو چیز خریدنے کا پتا نہں ہے تم اچھی خریداری کرتے ہو، اور وہ سُست بھی بہت ہے گھنٹہ لگا دیتا ہے ایک کام کیلیئے تم تو بڑے تیز ہو اور سب سے پیارے بیٹے ہو مجھے تم سب سے اچھے لگتے ہو۔  امی صبح صبح ہمارے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے ہمیں ایک میٹھی گولی سے نوازتیں ساتھ میں ایک روپے کا لالچ ، کتنی خوشی ہوتی تھی وہ ایک روپیہ ملنے کی دوسرا روپیہ ہم پیدا کر لیتے تھے ۔ کیونکہ ایک روپیہ اُجرت ہمیں کم لگتی تھی لیکن احتجاج کر کے حاصل کچھ نہیں ہوتا تھا ابا ڈی پاکٹ منی نہیں بڑھاتے تھے اور ہم بھی کرپشن کرنے پر مجبور تھے امی کی باتوں سے ہم شیرو سے شیر بن جاتے اور ناشتہ کرنےکے بعد اپنے دو روپے کے لالچ میں گھنٹہ دو گھنٹہ بازار میں خجل خراب ہوتے رہتے ۔ 
اِس ساری پنجائیتوں سے فارغ ہوتے تو گرمیوں کی چھٹیوں کا کام رجسٹر کالے کرتے پر ہمیں یقین ہوتا یہ چھٹیوں میں ختم نہیں ہو گا اور نہ کوئی اِس کو چیک کرے گا اُس میں بھی فُل کرپشن ہوتی ڈنڈی مار کر سارے رجسٹر کالے کیلئے جاتے ہم سب سکول کے کام میں مصروف تھے کے مین دروازے کی گھنٹی بجی ہمیشہ کی طرح ہم ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے کے کون جائے گا دروازہ کھولنے اور ہمیشہ کی طرح یہ قرعہ ہمارے نام نکلا ہمیشہ ہمارے نام ہی نکلتا تھا بچن میں بہت لاٹریاں کھیلی اُن میں سے کوئی نہ نکلی لیکن اِس قرعہ کو ہم سے اللہ واسطے کا بیر تھا یہ ہمیشہ ہمارے نام نکلتا تھا ہم نے اٹھنے میں تاخیر کر دی دوسرے کمرے سے ابا ڈی ہمیں گھورتے ہو دروازہ کھولنے چلے گے دروازے پر دودھ والا تھا  اوے آگیا تو پانی لے کر ابا ڈی دودھ والے کی ڈی میں گھُس کردھڑا دھڑ گول کرنے لگے اور تُو کل بھی نہیں آیا ، وہ باو جی میری مجَ )بھینس )بیمار تھی کل فیر دودھ کم تھا آِس لیے آ نہ سکا ۔، دودھ کم تھا تو اور پانی ڈال لیتے ابا جی نے اُس کی ڈی میں گھُس کر ایک اور گول داغا ، میں اور امی یہ سب صحن میں کھڑے سُن رہے تھے امی کو ڈر تھا یہ دودھ والا بھی بھاگ جائے گا اور مجھے موت پڑ رہی تھی یہ بھاگ گیا تو میری پکی ڈیوٹی لگ جانی ہے ۔ پر ابا جی تو فُل سازوسامان لے کر ااُس دودھ والے پر چڑھے ہوئے تھے آخر ہمارے گُستاخ کانوں نے وہ جملہ سُن ہی لیا اگر دودھ کا یہ حال ہے تو ہمیں نہیں ضرورت کل سے مت آنا ، ہمارے پاوں تلے زمین نکل گئی ہم نے مصوم سی شکل بنا کر کر امی کی طرف دیکھا امی  
نے سر جھٹکا مُسکراتی ہوئی باورچی خانہ میں چلی گئ
"جاری ہے "