-->

21 نومبر، 2013

حال عجیب

کئی دنوں سے کچھ لکھنے کو دل چاہ رہا تھا پر خیال کسی ایک مرکز پر اکھٹے نہیں ہو پا رہے ۔ لکھنے کچھ بیٹھوتو ایک نیا ہی خیال جنم لے لیتا ہے اُس کیلئے قلم گھسنے بیٹھو تو وہاں سے من کسی اور طرف ہی چل پڑتا ہے ۔ حالت ایسی ہوئی ہے جیسے کوئی بس سٹینڈ پر کھڑا ہو جس سمت سے آواز آتی ہے اُسی بس میں سوار ہو جاتا ہوں ۔ ابھی آدھا راستہ بھی طے نہیں ہوتا اُس بس سے اُترجاتا ہوں ، وہاں سے پھر ایک نئے سفر کیلئے نکل پڑتا ہوں ، پھر لمحے بھر کو لگتا ہے میں غلط سمت میں ہوں ، ایک لمحے کو رکنے کی کوشش کرتا ہوں منزل کا تعین کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ لیکن زندگی ہے کی چلتی جاتی ہے ۔ لمحے بھر کو بھی رُوکتی ہی نہیں دوسرے لمحے احساس ہوتا ہے میں پیچھے رہ گیا ہوں تیز تیز چلتا ہوں کے میں بھی اِس دُنیا کی بھیڑ میں گُم ہو جاوں اِس دُنیا کے ساتھ چلوں پھر بیچھے رہ جاتا ہوں وقت اتنی تیزی سے بدلتا ہے کے سنبھلنے نہیں دیتا، 
جب منزل کے قریب پہنچے کا احساس ہوتا ہے ایِک سکون  ہوتا ہے تو مڑکے کھٹن راستے کو دیکھتا ہوں جو طے ہو چکا تو کئی خامیوں کا احساس دل میں رہ جاتا ہے منزل پہنچ جانے پر بھی کوئی خوشی نہیں ہوتی ۔ کیونکہ جن کیلئے سب کچھ کیا وہ بہت آگے نکل گئے دل میں ملال  تم ابھی بھی بہت پیچھے ہو ۔ ہر انسان کی ایک خاص حد ہوتی ہے وہ اِس سے آگے سوچ نہیں سکتا وہ جتنی بھی کوشش کر لے وہ اپنی حدودں کو پھلانگ نہیں سکتا ۔ خدا نے اُس کو ایک حد میں رکھا ہے وہ کیسے اِس حد کو توڑ سکتا ہے۔ جب انسان حدوں کو توڑتا ہے تو صرف بربادی کرتا اپنی بھی اور اِس قُدرت کی ۔  تو کیوں انسان سمجھ لیتا ہے وہ ہر کام کرسکتا ہے 
 کوئی ہوتا ہے آپ کے پیچھے دُعا کرنے والا ۔جو آپ کیلئے دُعا کرتا ہے جس کی دُعا کے سہارے اتنا کے اِس دنیا میں  کم از کم سانس لیتے رہتے ہو۔ لیکن سب بھلا نہیں ہوتا۔
۔ بھاگ بھاگ کے زندگی زندگی کی آسائشیں اکھٹی کرتے ہیں جب اُن کی ضرورت پڑتی  وہ کسی کام کی نہیں رہتی 

(نوٹ ) اِس میں نہ کوئی مرکزی خیال ہے اور نہ کچھ آپ کو سمجھ لگ جائے تو مجھے بھی سمجھا دیں ، شاید کچھ 
میری بھی رہنمائی ہو جائے