-->

1 دسمبر، 2013

دارا کا گاوں

      شیروکی شروعاتی طالب علمی کاواقعہ ہےجب شیروعلم کی روشنی سے روشناس ہونے جارہا تھا شیروکو یاد نہیں وہ کون سا دن اور کون سا سال تھا شیرو کے والد محترم اُسے سہراب سائیکل پر بیٹھا کر ایم سی کھوتی سکول میں لے  آئے یہ اُس علاقے کا واحد سکول ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی خاصیت یہ تھی شیرو کے سارے بڑے بھائی اِس سکول کی اعلی تعلیم سے روشنا ہو چکے تھے ۔ جب سکول پہنچے تو پرنسپل صاحب کے آفس میں کاغذی کاروائی کے بعد شیروکوایک کلاس روم نما کمرا میں لےجایا گیا جہاں خوبصورت بچے ننھی منی کرسیوں میں بیٹھے شیروکو اپنی سرمہ بھری آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کمرہ خوبصورت چارٹ سے سجایا گیا تھا صفائی اور ستھرائی کمال کی تھی، دیواروں پر ٹوم اینڈ  جیری کی تصویریں بنی ہوئی تھی شیرو کی نظر ایک کونے میں رکھے میز اور کُرسی پر پڑی جہاں ماسٹر صاحب تشریف فرماں تھے ۔ شیرو کلاس کے دروازے پر کھڑا اپنے ہی خیالوں میں گُم تھا کے ساتھ آئے ہیڈ ماسٹر صاحب نے ڈنڈے سے جنبش کرتے ہو کہا چل پُتر ، شیرو پر گھبراہٹ اب بُری طرح طاری ہونا شروع ہو گئی تھی ، چھوٹی عمر کا پہلا روگ لگنے جا رہا تھا ، پرنسپل صاحب نے ماسٹر صاحب کو مخاطب کرتے ہوکہا رمضان صاحب یہ بچہ نیا آیا ہے ، اچھا بچہ ہے بلکل کورا ہے اِس کا خیال رکھیں ، یہ کہہ کرپرنسپل صاحب تو چلے گئے پرشیروکی فُل تفشش شروع ہو گئی ۔ ماسٹر صاحب نے مونچھوں کو تاو دیا اور  شیرو کو قریب آنے کا اشارہ کیا شیرو ڈرتے ڈرتے ماسٹر صاحب کے قریب آیا ۔، کیا نام ہے تمہارا ، ۔۔؟ شیرو گھبراہٹ میں نام بھول گیا، پہلی بار تھا کسی انجان نے اُس کا نام پوچھا تھا ، ڈرتے ڈرتے نام بتایا  وہ بھی اُلٹا ابا جی کا نام پہلے لگا دیا اپنا نام بعد میں ، ماسٹرصاحب  بھلے آدمی اور تجربہ کار تھےسمجھے گئے شیرو انتہائی شریف بچہ ہے، پر شیرو نےاُس وقت کی تفشیش سے باقاعدہ رونا شروع کر دیا آنکھوں میں گلیٹو بھر آئے ماسٹرصاحب نے شیرو کو بازو سے پکڑا اور ایک ٹاٹ پر بیٹھا دیا ۔۔ آنسووں سے آنکھیں دُھلی تو شیرو نے کمرے کا ایک بارپھر سے جائزہ لیا ۔ماسٹر صاحب بلیک بورڈ پر چاک سے حساب سمجھا رہے  تھے ،کمرے کی کھڑکیوں کی جالیاں ٹوٹی ہوئیں تھی، رنگ و روغن اکھڑا  ہوا تھا ، اور شیروجن تصویروں کو ٹام اینڈ جیری سمجھ رہا تھا وہ چھت سے لٹکتے جالے تھے ، جب شیرو اِردگرد کے ماحول کا جائزہ لے رہا تھا اُس نے نوٹس کیا باقی ساری کلاس  بلیک بورڈ کی بجائے اُس کی طرف دیکھ رہی ہے ، خاص کرساتھ بیٹھا لڑکا جو باربار بازو سے ناک صاف کرتا  اور شیرو کو دیکھتا ، پہلے دن چھٹی تک یہ حالت ہو گئی تھی کے ٹاٹ پر بیٹھنے سے شلوار کا رنگ مٹیالا اور قمیض اُسی طرح سفید تھی ۔ 
اب یہ روزانہ کی روٹین تھی صبح اُٹھنا رونا پھر سہراب سائیکل کی سواری اور سکول ، تھوڑے عرصے کے بعد  شیرو اب سسٹم میں بیٹھنا شروع ہو گیا تھا ،اب وہ اِس سسٹم کا ایک پُرزہ بنتا جا رہا تھا اب وہ خود ہی مختلف گلیوں سے ہوتا صبح سکول پہنچ جاتا اور تفریح کے وقت ٹوٹی سکول کی کھڑکیوں سے چھلانگ لگا کر بھاگ کر گھر پہنچ جاتا جب شیرو کی امی صبح کے پراٹھے میں ایک آلو لپیٹ کر لڈو بنا کردیتی اور اُس کو دُنیا کی سب سے متبر چیزسمجھ کر کھا لیتا اور پھر منہ سے سکوٹر کی آواز نکالتا اور واپس سکول بھاگ جاتا ۔
جس دن سکول میں حکومت کی طرف سے ٹیکے لگانے والی ٹیم آتی تو کئی بچے رونا شروع کر دیتے اور کئی کھڑکیوں سے چھلانگیں لگا کر آدھی تفریح میں گھر بھاگ جاتے لیکن جب دوسرے دن پکڑے جاتے تواُن کے ساتھ وہ سلوک ہوتا جو ٹیکا سب کو بازومیں لگتا وہ ماسٹر صاحب کی میز پر اُلٹا لٹا کر اُن کی تشریف پر لگواتے ۔ وہ سارا دن ٹھیک سےاپنی تشریف ٹھنڈی زمین پر رکھ نہیں سکتےہر لمحہ پینترے بدلتے رہتے ۔ سکول کاآخری پیریڈ معاشرتی علوم  کا ہوتا ماسٹر خلیل نامی ماسٹر تھے جو اپنی کُرسی سے اُٹھنا گوارہ نہیں کرتے تھے کُرسی کے اُوپرالٹی پالتی مار کراونگھتے رہتے کُرسی کے ساتھ ایک جھاڑی نما ڈنڈا رکھا ہوتا، ایک لمبی سی چھڑی  ہوتی اُسکے آخری سر پر تھوڑے پتے چھوڑ دیئے جاتے  جب شور سے اُن کی آنکھ کھُلتی تو جھاڑی نما ڈنڈا زمین رگڑکھاتے ہوئے آتااور ایک ماہر جن نکالنے والے جھاڑو کی طرح اُس پر برستا ۔۔ 
اُس میں سمیٹی ہوئی ساری مٹی کپڑوں اور سر پر جم جاتی ۔۔۔ چھٹی کے بعد جب شیرو گھر پہنچتا تو پہچاننے کے قابل نہیں رہتا تھا منہ سر مٹی سے اٹے ہوتے  اُس کی امی یقین کرنے کیلئے اُس کا منہ دو تین بار دھلواتیں پھر غور سے دیکھتیں کے  اپنا ہی بچہ ہے ۔۔۔۔ 
آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے ۔۔ اُمید تھی کے بارش ہو جائے کی اِس اُمید پر کے آج بارش ہو گی اور سکول میں جلدی چھٹی ہو جائے گئی تو جلد واپس آکر امی سے بولے گا پکوڑے بناو ، اِسی لالچ میں شیرو خوشی خوشی چھلانگیں مارتا سکول پہنچا ۔۔ سارے بچے اپنی اپنی ہانکنیں میں مصروف تھے کے ماسٹر صاحب کلاس میں آئے اور سب بچوں کو باہر آنے کا کہا سب بچے باہرگراونڈ میں آگئے ماسٹر صاحب نے کُرسی پر بیٹھتے ہی رول نمبر ایک پُکارا
رول نمبر  ایک نے بڑی دلیری سے حاضر سر کا جواب دیا ۔۔ ماسٹرصاحب نے کہا آجا باہر اپنی اُردوکی کتاب بھی لے آ رول نمبر ایک جلدی سے ماسٹرصاحب کے سامنے اُستادی کرتے میز پر پہنچ گیا ، چل کھول کتاب اور " دارا کا گاوں پڑھ " ماسٹر صاحب نے رول نمبر ایک کو حکم دیا ۔۔ اب رول نمبر ایک کی کھٹیا کھڑی ہو گئی اٹک اٹک کر دارا کا گاوں پڑھنے لگا ۔۔ اور جب ان گنت غلطیاں کرنے لگا تو ماسٹر صاحب کو طیش آ گیا ،، اوئے جمیل تےعلی کلاس کے دو تڑنگے لڑکوں کو آواز دی دونوں نسطور جن کی طرح حاضر ہوئے رول نمبر ایک کو میز پر لمیاں پاو! ماسٹر صاحب نے دونوں کو حکم دیا رول نمبرایک  نے اپنی کمبختی آتی دیکھی تو حسب منشاہ واویلا شروع کر دیا پر دونوں جوان بڑے ظالم تھے اُنھوں نے کوئی رحم نہ کھایا اور رول نمبر ایک کو میز کی ٹکٹکی پر لگا دیا ماسٹر صاحب نے اُس کی خوب توازہ کی ۔۔ آہ پکار سے باقی کلاس کا خون دو دو بوتل کم ہو چکاتھا ۔۔ رول نمبر ایک آنسو بہتا اپنی جگہ پر آبیٹھا ۔۔ پھر ماسٹر صاحب نے رول نمبر ایک کو آواز دی ، ادھر نہیں ایک نئی قطاربناو تم سب سے الگ بیٹھو جو سبق سناچکیں گئے وہ تمہارے پیچھے بیٹھیں گے اب دو قطاریں بن گئیں ۔ شیرو سبق سنانے والوں کی لائن میں سب سے پیچھے دم بخود بیٹھا سوچ رہا تھا جلدی چھٹی کے چکر میں یہ کیا آفت شروع ہوگئی آج تو من پکوڑے کھانے کا اب سوٹے کھانے پڑیں گئے ۔۔ 
رول نمبر کی جگہ قطارچل رہی تھی ہر کوئی حسب منشاہ  اپنے اپنے حصۓ کا چورن کھاتا اورپچھواڑا ملتے ملتے دوسری قطار میں بیٹھ جاتا ۔۔ کلاس میں سب سے چھوٹا لڑکا زاہد تھا ۔۔ اُس کا قد سب سے چھوٹا تھا ۔۔ باقی کلاس کی طرح اُسے بھی سبق یاد نہیں تھا جمیل اورعلی اُس کو میز پر لٹاتے تو اُس کےپیر زمین سے اُٹھ جاتے پیر زمین پر لگا تے تو مُشکل سے اُس کا سر ہی میز پر اوندھا ہوتا ۔۔ ماسٹر صاحب نے یہ حالت دیکھی تو حکم دیا اِس کا پُل بناو ،۔۔ شیرو نے یہ سُنا تو آگے والے کو جنبش کی اوے یہ کیا سزا ہے ۔۔ آگے والا پہلے ہی گھبرایا ہواتھا اُس نے ہونٹوں پر انگلی رکھی اور چُپ رہنے کا اشارہ کیا ۔۔ 
ماسٹرصاحب کا حکم سنتے ہی جمیل نے زاہد کی ٹانگیں اورعلی نے اُس کو بازوں سے پکڑ کر اُسے  ہوامیں اُلٹا معلق کر دیا اب زاہد کا منہ زمین کی طرف تھا  ایسا لگ رہا تھا جیسے زاہد بہت بڑی بلڈنگ سےسپائڈر مین کی طرح چھلانگ لگا رہا  ہے، دور سے دیکھا جاتا تو جمیل ،زاہد اور علی گولڈن گیٹ کا منظر پیش کر رہے تھے  ۔۔ اُس عمر میں شیرو کو پتہ نہیں تھا تو لازمی سب کوبتاتا کے گولڈن گیٹ بریج کا خیال ہمار ماسٹر صاحب کا ہی تھا ۔۔ 
جیسے جیسے شیرو کی باری نزدیک آرہی تھی رگوں میں خون خشک ہونے آ رہا تھا ۔۔ دوسری قطار اب بڑھتے بڑھتے اب اتنی لمبی ہو گئی تھی کے جتنی لڑکے سبق سنا چکے تھے اُتنے ہی باقی تھی ۔
شیرو کو ایک ترکیب سوجھی ، جب ماسٹر صاحب سبق سننے کے بعد لڑکےکو سزا دینے میں مصروف تھے شیرو نے کلٹی کھائی اور پلک کی جنبش سے پہلے سبق سنا چکے لڑکوں کی قطار میں سَرک گیا ۔ اُس لائن میں آگے بیٹھے لڑکے نے اُس کو بے رحم نظروں سے دیکھا  اُس کو تو غصہ آنا ہی تھا وہ اتنی بھگت کر آیا تھا اور شیرو صرف لہو لگا کر شہیدوں میں نام کر رہا تھا ۔۔ شیرو نے معصوم سی صورت  بنا کر اُس کی منت سماجت کی کوشش کی لیکن بے سوُد ، باقی کلاس کو بھی اِس حرکت کا پتا چل چُکا تھا ۔۔ اِس سے پہلے کے وہ لڑکا مُڑ کر اِس حرکت کا ڈنکا بجاتا ۔۔ بارن رحمت آن پہنچی بارش کی بوندیں تیزی سے گرنے لگیں اور کسی فرشتہ صفت نےسکول میں چھٹی کی گھنٹی بجا دی ۔۔