-->

17 جنوری، 2014

بِلورانی

ہم دفتر میں سُستی اور کاہلی کا بھنڈار لیے کُرسی پر اُنگھ رہے تھے دماغ کہہ رہا
تھا مجھے سے کوئی کام لو نہیں تو میں مزید ناکارہ ہو جاوں گا۔ پر دل کہہ رہاتھا بیٹھے رہو چائے پیو مزے کرو ساری عُمر گزر گئی کام کرتے ہم اسی شش و پنج میں تھے کے کیا، کیا جائے، پھر سر کُھجاتے خیال آیا آ ہا کیوں نہ نا مکمل تحریروں کو مکمل کیا جائے ، یہ خیال آتے ہی ہم نے اپنے خیالوں کے گھوڑے پرزین کَسی اور اُس پر سوار ہو کر ایک سو چالیس کی رفتار سے خیالوں کا گھوڑا بھگا نا شروع کر دیا۔ ابھی نئے خیالات کی آمد شروع ہی ہوئی تھی کے ہمارا موبائل بج اُٹھا ۔۔ ٹرن ٹرن ۔۔۔
خیالات کے گھوڑے نے ہمیں پیٹھ سے ناتجربہ کار گھڑاسوار کی طرح گرایا اور خود کہیں خلاوں میں گُم ہو گیا ، ہمارے سارے خیالات کی آمد تیتربتر ہو گئی ،
کبھی خود کو اور کبھی موبائل بنانے والے کو کوستے ہوئے موبائل کا چونگا منہ سے لگا اور مریل آواز سے ہیلو کہا،
دوسری طرف سے آنے والی آواز راؤ پرکاش کی تھی ، ہیلو مسٹر اسد آپ ہمارے آفس آ سکتے ہیں ہمیں کمپیوٹر میں کچھ ٹیکنکل پرابلمز آرہی ہیں آپ آکر پلیز مسٹر پرسنا سے مل لیں وہ آپ کو بتا دیں گے کیا کرنا ہے  “ ہم نے آنے کا کہا اور موبائل ہینگ کر دیا !
راؤ پرکاش ایک چھوٹی سی کمپنی چلاتے تھے جو بڑی بڑی کمپنیوں کا  اکاونٹس آڈٹ کرتے تھے راؤ صاحب کی کمپنی بھی اُن کمپنیوں میں سے تھی جہاں اچھی کمپنی مل جاتی تھی ہم  آنا فانا تیارہوگئے ،
قسم اگرکسی اور آفس سے فون آتا توہم کبھی بھی نہ جاتے پر کچھ کمپنیاں ایسی تھی جن کی فون کال پر ہماری باچھیں کھُل جاتی تھیں ۔
ہم کچھ ہی منٹوں بعد راؤ پرکاش کے دفتر کے سامنے کھڑے تھے دفتر کیا تھا بس گھر اور دفتر کا مِلا جُلا ساماحول تھا راؤ پرکاش نے گھر میں ہی بڑے ھال کو خالی کر کے آفس بنایا ہوا تھا۔ مرکزی دروازے سے اندرداخل ہوتے ہی ہمیں مسٹر پرسنا مل گئے اُس نے ہمیں ساری پرابلم بتا کر آفس کے ایک کمپیوٹر پر بیٹھا دیا جب مسٹر پرسنا ہمیں ساری پرابلم بتا چُکے تو ہم نے اُسے ایک گھنٹے کا ٹائم دیا وہ کچھ کام کا کہہ کر خود باہر نکل گیا ہم کُرسی پر برجمان بیٹھ گے۔ کام صرف دس پندرہ منٹ کا تھا لیکن پھر بھی ہم نے مسٹر پرسنا کو ایک گھنٹے کا ٹائم دیا۔ اب ہم نے ھال میں نظر دوڑائی تو ایک کونے میں مسز راؤ ہماری طرف دیکھ رہیں تھیں ہم نے ہاتھ سے ہیلو کا اشارہ کیا انھوں نے اثبات سے سرہلایا ہم نے اُن  سے سامنے والی ایک کُرسی کی طرف سوالیہ اشارہ کیا ؟ مسز راؤ نے مُسکرائیں ، مدیحہ اُس کی شادی ہو گئی وہ تو قطر چلی گئی
ہمارے دل پر اوس پڑگئی ہم پھیکی سی مُسکراہٹ لے کراپنے کام میں مصروف ہو گئے ۔
کچھ ہی لمحوں بعد انتہائی خاموش قدموں سے دفتر کے دروازے میں کوئی داخل ہوا ہماری اور اُس کی آنکھیں ایک لمحے بھر کو ٹکرائیں بس ایک لمحے کیلئے، اُس کی عجیب فیروزی سی آنکھیں سنہری سے بال گردن جوانی کے زور سے اکڑی ،  چال میں ایک شوخی  وہ تھوڑی سی ٹھٹھکی پھر اپنی اُسی چال سے چلتی ہوئی مدیحہ والےخالی میز پر برجمان ہوگئی ،اُس پر پڑے قلم سے کھیلنے لگی !“ 

اُس کی گول فیروزی آنکھیں دیر تک مجھے گھورتی رہتی، پنکھا چلنے سے اُس کے سُنہری سے بال ہوا اُڑتے تو جیسے یہ وجود سونے کا بنا ہو اور پل پل پگھل کر اُڑ رہا ہو، 

دراَصل کالی آنکھوں کے علاوہ ، نیلی ، پیلی ، سبز آنکھیں ہمیشہ میری کمزوری رہی ہیں !
وہ خاموشی سے اُسی طرح اپنے میز پر بیٹھی سامنے پڑے قلم سے کھیل رہی تھی جب میری نظروں نے پھر اُس کا تعاقب کیا لیکن اُس کی حِس بلا سی تھی جب میں اُسے کنکھنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کرتا وہ فورا رُخ موڑ کر میری طرف دیکھنا شروع کر دیتی !
میں حیران تھا کے وہ مجھے اگنور کیسے کر سکتی ہے نہ ہائے نہ ہیلو ایک ہنڈ سم نوجوان اُس کے سامنے بیٹھاہو وہ منہ موڑ لے !
وہ بدستور اپنے قلم سے کھیلتی رہی کبھی اُس کو آگے دھکیل دیتی تو کبھی آگے بڑھ کرپھراُسے تھام لیتی !
میں اپنے کام سے فارغ ہو چکا تھا میں نے بھی اُس کی توجہ حاصل کرنے کیلئے اپنے پاس ہوئے قلم سے اُس طرح کھیلنا شروع کر دیا اُس نےقلم کی آہٹ سُنی تواپنی فیروزی آنکھیں اُٹھا کر ایک بار مجھے دیکھا میں نے بھی ہمت کر کے اُس سے آنکھیں چار کیں۔ کافی دیر تک ہماری آنکھیں چار ہوئیں، لیکن شاید اُس کو میری یہ حرکت پسند نہ آئی اُس نے منہ موڑ لیا، مجھے احساس ہوا میں نےغلطی کردی ! ایسے کسی کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نہیں دیکھتے، دُنیا میں ایسی ہزاروں ہیں پر پتہ نہیں کیوں جیسے وہ دروازے سے داخل ہوئی، اُس کی فیروزی  سی آنکھیں سنہری سے بال چھوٹی سی ناک دل کو لبُھا گئی تھی اُس سے نظر ہٹتی ہی نہیں تھی دل کرتا اُس کو دیکھتا جاوں، پہلی نظرمیں ہی وہ دل کو چُھو گئی تھی جیسے کہ وہ نظروں کے راستے دماغ کے کسی گوشہ میں بس گئی ہو !
میں اپنے خیالوں میں گُم اپنی غلطی پر پچھتا رہا تھا کے وہ دبے پاوں چلتی ہوئی میرے پاس آئی اور میرے میز کے کونے پر بیٹھ گئی میں دَم سادھے بیٹھا تھا اُس نے میرے سامنے پڑے ہوئے قلم کو حرکت دی میں نے نظریں اُٹھا کر اُسے دیکھا وہ میرے انتہائی قریب آگئی تھی اُس کی گول فیروزی آنکھیں ، سنہرے بال قریب سے قریب ہوتے جا رہے تھے اتنے قریب کے اُس کے ناک کے نتھنوں سے نکلنے والی گرم ہوا مجھے اپنے چہرے پر محسوس ہوئی ، اُس نے اپنی ناک کو مزید آگے بڑھایا اور میری ناک کے ساتھ رگڑا ، میں ایک لمحے کیلئے دم بخود ہو گیا،  بس اگلے ہی لمحے میرے ہاتھ بے اختیار اُٹھے اور اُسی کی سنہری بالوں سے بھری گردن کے گرد لپٹ گئے۔
اگلے ہی لمحے اُسکی مونچھ کا بال میری ناک میں گُھس گیا اور مجھے زبردست چھینک آگئی وہ بیچاری مردانہ چھینک سہہ نہ سکی اور جست لگا دروازے سے باہر بھاگ گئی !
  مسز راؤ یہ سب دیکھ کر ہنس دی اور بولی “ اِسد تمہیں بھی بلی پسند ہیں “ میں نے ناک سکیڑتے ہوئے کا ہاں مجھے بہت پسند ہے "بلی"  ،  آئی لو کیٹز “
“ 


8 comments:

جعفر نے لکھا ہے کہ

ہاہاہاہاہاہا۔۔۔
واہ اوئے بھٹی

گمنام نے لکھا ہے کہ

بچپن میں ایسے ٹویسٹڈ اینڈ والی کہانیاں پڑهیں تهیں.
واقعی بڑا ان ایکس ہیکٹڈ اینڈ تها.
دلچسپ تحریر.
بہت خوب

Unknown نے لکھا ہے کہ

خوب

وحید سلطان نے لکھا ہے کہ

اتنا سسپنس کرئیٹ کرکے بلی کے بھاگوں چھینکا تڑوا ڈالا :ڈ
یہی وجہ سے جو آپ کی تحریر کا انتظار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

یہ حادثہ واقعی ہوا میرے ساتھ ، وہ بلی کمال کی بلی تھی ۔ تمام دوستوں کا تحریرپسند کرنے کا شکریہ

Unknown نے لکھا ہے کہ

very nice . mujhay andaza nahi tha k aap itna acha likh letay hain. Its great effort.
Abdul Basit.

Dohra Hai نے لکھا ہے کہ

جناب آپ کی اس، بِلی نے کیا ہم کو میاوں۔ بہت مزہ آیا پڑہ کر

گمنام نے لکھا ہے کہ

زبردست

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔