-->

16 اپریل، 2014

مزدور (غُلام) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (افسانوی)

ہم سب غلام ہیں وقت کے حالات کے ، پرحقیقت میں ہم جس کے غلام ہیں ہم اُسے سمجھ نہیں پاتے ، اُس سے و تعلق بنا نہیں پاتے جس کا وہ حقدار ہے،اِس لیے ساری زندگی اپنے لیے مقصد ڈھونڈتے رہتے ہیں۔زندگی شاید کبھی صرف اپنے لیے نہیں ہوتی کسی کے نام کی اُدھار لی ہوتی ہے اِس کے پیچھے کیا مقصد ہے شاید وہ وقت کے ساتھ ہی سمجھا جا سکے ۔ دُنیا میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں زندگی جیتے ہیں پر اپنے لیے نہیں۔ صرف دوسروں کی بھلائی کیلئے۔
 غلام ایک پیدائشی مُزدور تھا مزدور کا بیٹا مزدور ساتھ بہنوں کا اکلوتا بھائی بیٹے کی خواہش میں اُس کے والدین نے سات بیٹیوں کی ایسی دیوار بنا دی تھی جس کو توڑنے کیلئے ایک قوت چاہیے ایک ہمت اِس دور میں جہاں غریب کا چولہا جلانا مشکل ہے وہاں سات بیٹیوں کی شادی ۔۔ ایک مُزدور کی آمدن کتنی ہوتی ہے روز پانی پینے کیلئے روز کنواں کھودنا پڑتا ہے دیہاڑی لگتی تواُس کی کمائی سے چولہا جلتا تھا ، اِس لیئے غلام کا پڑھنے لکھنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا بچپن سے ہی اُستادی شاگردی کبھی سائکلوں والی دوکان پر، وہاں سے بھاگا تو کسی ہوٹل میں چھوٹے کا کردار ادا کیا برتن دھونے   برتن اٹھانے اور صاحب جی صاحب جی کیا کھاو گئے جہاں چائے کا کپ یاں سالن کے پلیٹ میز پر رکھتے ہاتھ لرزے  چھینٹ صاحب کے کپڑوں پر پڑی وہاں انجام ایک ہی تھا ایک زناٹے دار ٹھپڑجب بھی ایسا تھپڑ اُس کو پڑتا تواُس کے دل میں سوال پیدا ہوتا کیا ضروت تھی خدا کو اُسے پیدا کرنے کی
زندگی کا پہیہ چلتا گیا غلام کا بچپن تو اِیسے ہی برتن دھونے مار کھانے میں گزر گیا غلام سولہ سال کا تھا جب اُس کی پہلی بہن کی شادی ہوئی ، شادی ہوئے ایک سال گزر گیا تھا دوسری بہن کی شادی کی بات چل رہی تھی ایک رات اُس کا باپ ایک رات سویا تو صبح اُٹھ نہ سکا گھر میں جو کچھ تھا وہ بہن کی شادی کی تیاری میں خرچ ہو چکا تھا گھر میں اتنے پیسے بھی نہیں تھے کے اُس کے باپ کو کفن نصیب ہو سکے بہن کے جہیز سے سونے کی مُندریاں نکال کر باپ کو کفن نصیب ہوا ۔ باپ کے جنازے کو کاندھادینے اور اُس کو مٹی تلے دبانے تک اُس کی آنکھ میں آنسو نہیں آیا باپ کو قبر میں لیٹاتے ہوئے اُس کے ہاتھ ایک بار ضرور لرزے باپ کی قبرپر خود اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈالنے کے بعد واپس گھر آیا باپ کی چارپائی خالی دیکھی حقے کی نال ایسی ہی چارہائی  پر رکھی تھی تو نہ تھمنے والے آنسو جاری ہوئے ناجانے کب تک ماں کے ساتھ لپیٹ کر روتا رہا ۔۔۔
دو دن گزر چکے تھے جب گھر میں کھانے کے لالے پڑنے لگے تو اُس کی ماں نے اُس کے باپ کا سفید صافہ جو اُس کا باپ ہمیشہ مزدوری کرتے سر پر باندھتا تھا ۔ وہ صافہ آج اُس کی ماں نے آُسے کے کاندھے پر ڈال دیا ۔ صافہ کاندھے پر رکھتے ہی جیسے جسم میں ایک ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے کی ہمت پیدا ہوگئی

 ذمہ داری کا بوجھ ڈھونے کیلئے مزدوروں کی منڈلی میں جا بیٹھا،بوڑھے مزدوروں نوجوان مزدوروں کو پسند نہیں کرتے غُلام اُن سے  زرا پرے ہٹ کر بیٹھ جاتا، وہ بھی اُسے بڑے عجیب لگتے تھے میلی کچیلی چادروں میں ناجانے کہاں کہاں سے مزدوری کی تلاش میں شہروں کا رُخ کرتے منہ میں سگریٹ دبائے ایک ہی حالت میں گھنٹوں بیٹھے رہتے آنکھیں دُور خلاوں میں کھوئی رہتی گہری سوچوں میں گُم ، چہروں پر بڑھاپے کی سلوٹیں ، چہرے کیا تھے وقت کی ایک گزر گاہ تھی چہرے بتاتے تھے یہاں وقت کا گزر بڑا مُشکل ہوا ہے۔اور جاتے جاتے وہ چہرے پر اپنی نشانیاں لکیروں کی شکل میں چھوڑ گیا ہے۔
غلام ابھی جوان تھا مزدوری ملتی رہی رات دن کام کرکے وہ درخت جو اُس کی گھر کی دیواروں سے باہر جھانکنے لگتا اُسے اپنے باغ سے رخصت کر کے اپنی اصل مٹی میں پہنچا دیتا، غلام نے مزدوری کر کے
کسی کا گھر کسی کا دفتر اور اُس خدا گھر بھی بنایا جس سے وہ ہمیشہ ایک سوال پوچھتا تھا کیا ضرورت تھی اُس کی کیوں اس دُنیا میں بھیجا، لیکن ابھی تک اُس کو اِس کا جواب نہیں ملا تھا ، دن رات مزدوری کرتا، بھاری سے بھاری بوجھ ڈھوتا پر اُس کا ہاتھ نہیں لرزتا،
آخری بہن کی شادی کی تاریخ آنے تک اُس کے بالوں میں سفیدی آگئی تھی،
آخری بہن کی شادی والے دن غلام کی ماں بہت خوش تھی ماں جو بہت کمزور ہو گئی تھی اُس دن جیسے اُس میں کوئی انجانی طاقت بھرآئی ہو ،اور خوش کیوں نہ ہوتی آخر آج اُس کی ساری لڑکیاں بیاہی گئیں ، جس باغ کی اُس نے دن رات حفاظت کی تھی آج اللہ کی مہربانی سے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو رہی تھی۔ اب وہ چین سے سو سکے گئی ، اب وہ اپنی پسند کی بہو لا سکتے کی غلام کا وعدہ تھا جس دن ساری بہنیں بیاہی جائیں گی اُس دن ماں تیرے دل میں جو آئے کرنا ۔ لیکن ،
غریب کے خوشیوں کے لمحے لمبے نہیں ہوتے وہ اِس دُنیا کی نظروں کو زیادہ دیر برداشت نہیں کرسکتے مزدورں کی خوشیاں اُن کی طرح مظبوط نہیں ہوتی ۔
ماں جو صبح سے ہر کام بڑی خوشی اور بھاگ دوڑ کر کر رہی تھی ، ایک دم سے جیسے جسم سے کسی نے جان کھینچ لی ہو ، مُردہ قدموں سے چلتی غلام کے پاس آئی اُس کو بازو سے پکڑ کر الگ کمرے میں لے آئی اور سرگوشی کے انداز میں کہا ، بیٹا وہ گاؤں والی زمین مانگ رہے ہیں ۔۔
غلام نے سوچتے ہوئے نظریں اُٹھا کر کمرے کی کھڑی سے دوسری طرف دیکھا دوسرے کمرے کی کھڑی میں سے اُسے اپنی بہن سُرخ جوڑے میں بیٹھی نظر آئی اُس کی نطر غلام سے ٹکرائی تو شرما کر ہاتھ چہرے پر رکھ لیئے ، بہنوں سے غلام کا کوئی خاص لگاو نہیں تھاپر ایک رشتہ تھا خونی رشتہ جو باندھ کے رکھتا تھا وقت پر جوش مارتا تھا ، ہمیشہ بہنوں کی رخصتی کے وقت آخری بار گلے ملتا تو آنکھیں نم ہو جاتیں ۔ آج لیکن آنکھوں میں نمی وقت سے پہلے آگئی تھی،ٹھیک ہے ماں ویسے بھی ہم اِس کو دوسروں سے کم ہی دے رہے ہیں ، ماں اپنے بیٹے کے اِس فیصلے پر مطمئین ہو گئی پر دل ڈول گیا اُس نے بڑی مشکلوں سے یہ زمین کا ٹکڑا اپنے لال کیلئے سنبھال کر رکھا تھا اپنے بیٹے کے ارمان پورے کرنے کیلئے۔ آنکھوں میں آنسو لے کر آگے بڑھ کر بیٹے کو گلے لگا لیا۔
دوسرے دن کچہری میں کاغذات پر انگوٹھے لگاتے غلام کے ہاتھ ایک بار پھرلرزے ۔۔

ماں اپنے باغ کی رکھوالی سے فارغ ہوئی تو اپنی بیٹے کیلئے انمول موتی کی تلاش میں نکلی ،لیکن زمانہ بدل گیا اب چہرے بناوٹی ہو گئے تھے دولت کی ہوس اور جھوٹی امارات نے لوگوں سے رشتے چھین لیئے تھے ، اب لوگ صرف پیسوں کیلئے اور پیسے والوں کیلئے زندہ تھے۔
ماں ایسی تلاش میں نکلی کے خود گھر واپس آنے کا رستہ بھول گئی ،اب اُسے شاید گھر آنے کی ضرورت بھی نہیں تھی جوباغ کے درخت اُس نے لگائے جن کی اُس نے برسوں حفاظت کی تھی اب اُس کے درخت کہیں اور پھل پھول رہے تھے، اِسی لیے اب شاید اُسے غلام سے زیادہ اپنے مجازی خدا سے ملنے کی جلدی تھی اسِ لیے ایک دن منوں مٹی تلے جا چھپی جہاں غلام اُسے پکار سکتا تھا پر پا نہیں سکتا تھا یہ جانتے ہوئے بھی اُس کا لگایا ہوا ایک درخت جس کی جڑیں ابھی بھی اُس سے جُڑی ہیں ، تنا مظبوط ہو گیا ہے پتے گھنے ہو گئے ہیں پر جو میٹھاس اُسے سراب کرتی ہے جس کو جھک کر سایہ دینے میں اُسے سکون ملتا ہے اُس کی ضرورت اُسے ابھی بھی ہے ۔ جس درخت سے سات پرندے ایک ایک کر کے اُڑ جائیں وہ شاید ایک اور آخری پرندے کا گھر پچانے کیلئے وقت کی تیز ہواوں سے لڑ نہیں سکتا تھا ۔ لیکن اُس کا بھی جانا ضروری تھا روکنے والے سے بُلانے والا زیادہ طاقتوار تھا، لیکن غلام کے سوال کا جواب نہیں دیتا تھا ،

اب غلام اُنہیں مزدوروں کے ساتھ بیٹھتا جن کے چہرے پر وقت گزر گیا تھا اب وہ بھی اُن میں شامل تھا وہ اب اُن جیسا ہو گیا تھا اُس کے چہرے پر بھی وقت نے گزرگاہ بنالی اور اپنی نشانیاں چہرے پر سَلوٹوں کی صورت میں کندہ کر گیا تھا ۔ مُلک میں حالات خراب ہوئے تو مزدوری ملنی بند ہو گئی ، غلام سارہ دن آوارہ گردی کرتا وہ ساری عمارتیں دیکھتا جنھوں نے اُس کی جوانی جذب کی تھی ۔
جمعہ کا دن تھا غلام آواری گردی کرتے کرتے اُس مسجد تک پہنچ جس کی اینٹوں میں غلام اور غلام جیسے کتنے مزدوروں کا پیسنہ چوسا تھا ،مسجد میں ایمان والوں کا رش تھا اپنے میلے سے کپڑے دیکھ کر غلام دروازے کے پاس اپنا صافہ بچھا کر بیٹھ گیا “ اور آنے جانے والوں دیکھتا کس شان سے وہ گاڑیوں سے ایک ایک کر کے اُترتے سفید کپڑوں میں ملبوس عاجزی سے چلتے لیکن کلف لگے کپڑے آواز پیدا کر کے اُن کی عاجزی کی دھجیاں اُڑا رہے تھے “ مسجد کے اندر مولوی صاحب اپنے شعلہ بیان سے بے حیائی اور فحاشی پرلوگوں کو محفوظ کر رہے تھے ۔ 
نماز ختم ہونے کے بعد غلام دروازے کے پاس بیٹھا اپنی مٹھیوں کو کبھی کھولتا کبھی بند کرتا ہاتھوں کی ہتھیلوں میں مسجد میں لگائی اینٹوں کی ٹھنڈک محسوس کرنے کی کوشش کررہا تھا ۔

ایک مخیر حضرت جو ایمان کی تازگی حاصل کرے کے بعد مسجد سے باہر نکل رہے تھے سوروپے کا نوٹ لہرا کرغلام کے سامنے ڈال گئے ۔ غلام نے یہ دیکھا تو صاحب ایمان کو روکنا چاہا لیکن آواز جیسے گلے میں رُندھ گئی ہو آنکھوں میں آنسو بھر آئےاپنے ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا، اپنے چہرے کو ٹٹولا تو بڑی ہوئی داڑھی، اِس داڑھی میں اور ایمان والوں کی داڑھی میں فرق تھا ، وہ خوبصورتی سے تراشی ہوئی تھی یہ حالات کی بڑھی ہوئی تھی ، گال اندر کو پچک ہوئے تھے چہرے سے ہاتھ ہٹائے تو کچھ اور لوگ نے ایمان کی حرات محسوس کرتے ہوئے، خیرات اُس کے سامنے پھینک گئے تھے ، غلام چیخنا چاہتا تھا سب کو بتانا چاہتا تھا میں مزدور ہوں بھیک منگا نہیں پر اُس کے گلے نے اُس کی زبان نے اُس کا ساتھ نہیں دیا ، صافے کو لپیٹا مسجد سے نکلا دوڑتا تو کدھر جاتا اب دُنیا میں اُس کا کون تھا ۔  سیدھا قبرستان پہنچا تو آنکھوں کے سامنے اندھیراسا چھا گیا ، پیسوں والا صافہ ایک طرف پھینکا اور ماں کی قبر سے لپیٹ کرپھوٹ پھوٹ کر  رونے لگا۔ ماں اِن کو بتاو میں مزدور ہوں میں بھیکاری  نہیں، تم تو خدا کے پاس پوچھو خدا سے جب اِس دُنیا میں میرا
کوئی کام نہیں تھا تو کیوں بھیجا مجھے رُوح دی تو وجود میرا کیوں نہیں بنایا ، جب سارا لکھا اُس کے ہاتھ تھا پھر ساری نعمتوں کے منہ مجھ سے کیوں موڑ دئیے جب میں اپنی مزدوری پوری ایمانداری سے کرتا تھا تو مجھے میری محنت کا یہ ثمر کیوں دیا؟

ایک سفید سی روشی میں ماں سامنے کھڑی تھی بیٹا غلام کیا ہوا ، ماں کو دیکھا تو روتے روتے پھر سے اپنے سوال دوہرانے لگا، ماں نے گلے لگایا ماتھے پر بوسہ دیا ، نہ بیٹا رب سے ناراض نہیں ہوتے ہر کام میں رب کی مثلحتیں ہیں، تیری تو صرف سات درختوں پرورش کی ذمہ داری تھی وہ ہر روز کُل خدائی کی کرتا ہے بے حساب کرتا ہے کبھی دیکھا اُس نے تجھ سے کوئی شکوہ کیا ہو ، زندگی کبھی بے مقصد نہیں ہوتی ، ہاں کبھی اپنی زندگی کسی اور کی ہوتی ہے ہم کسی اور کیلئے جیتے ہیں تیری زندگی بھی تیری نہیں تھی بیٹا ! تجھے جس مقصد کیلئے بھیجا تھا وہ تو تُونے پوری ذمہ داری سے پورا کردیا، تو نے وہ ہی کیا جولکھا تھا اور لکھا کبھی مٹ نہیں سکتا ۔ جو تو نے کیا تیرا یہی مقصد تھا بیٹا تیری محنت تیری ایمانداری سے میں خوش ہوں جب ماں خوش ہوتی ہے تو رب خوش ہوتا ہے ،میں تجھ سے اتنی خوش ہوں کے تجھ سے اور دُور نہیں رہ سکتی ، اسلیئے اُٹھ چل میرے ساتھ ۔۔۔ 
ماں کی آواز اُسے کہیں دور خلاوں سے آتی محسوس ہوئی  ۔۔
یہ مقصد تھا ، یہی لکھا تھا۔
گورکن قبروں کو دیکھنےاُدھر آیا تو دیکھا ایک شخص قبر پر اوندھے منہ پڑا ہے ، ہاتھ لگایا تو جسم ٹھنڈا پڑا تھا پاس ہی صافے کی پوٹلی بندھی پڑی تھی پوٹلی کھولی تو اُس میں روپے نکلے ۔
قبرکھودی غلام کو اُسی کے سفید صافے میں لپیٹا اور قبر میں اُتار دیا ۔ روپوں کو اپنی مزدوری سمجھ کر جیب میں رکھ لیا ۔