-->

14 جون، 2014

دوڑ (بھاگ شیرو بھاگ )

پچپن سے ہی شیرو  دوڑنے کا بڑا شوقین تھا، اسکول سے دوڑنے کی بات نہیں نہیں ہو رہی ، دوڑنے والی ورزش کی بات کر رہا ہوں، جس سے دل اور دماغ مضبوط ہوتا ہے، اعصاب قابو میں رہتے ہیں۔ اور بھی لاکھوں فوائد ہیں جن کا دُنیا تسکرا کرتے نہیں تھکتی کتابیں اِس کے فوائد سے بھری پڑی ہیں یہی کتابیں پڑھ پڑھ کر شیرو کو دوڑنے کا شوق پیدا ہوا۔ اب مصیبت یہ کے اِس کیلئے صبح صبح اُٹھنا پڑتا ہے وہ ناممکن بات ہے اگر اللہ اللہ کر کے  اُٹھ بھی جائے تو ابھی اُس کی عمر نہیں کے صبح سویرے اُس کو گھر سے نکل جانے کی اجازت مل جائے۔ شیرو بس اللہ سے دن رات دوعائیں مانگتا اللہ میاں مجھے بھاگنے کا موقع دے اتنی دعائیں تو شاید موت کا قیدی بھی نہیں مانگتا جتنی زورو شور سے شیرو نے مانگی آخیر پتہ نہیں کونسی گھڑی تھی اُس کی دُعا قبول ہو گئی ایک رات اُس نے دیکھا کے اُس کے بڑے بھائی اپنی سفید فلیٹ بوٹوں کے اوپر کیوی کی سفید پالش ما رہے ہیں شیرو نے قریب ہو کر پوچھا بھائی کہاں جا رہےہو؟ بھائی نے اِدھر اُدھر سر گھما کر دیکھا میں کہاں جا رہا ہوں میں تو یہاں بیٹھا ہوں ۔۔ پھر یہ جوتے کیوں پالش کر رہے ہو او بھائی نے سر ہلایا صبح زرا ورزش کیلئے جانا ہے “ورزش “ مطلب دوڑنے کیلئے شیرو چیخا  آ ہا ۔۔۔ میں بھی جاوں گا ۔۔۔۔

تم کہیں نہیں جا رہے اپنا منہ بند کرو اور یہاں سے دفعہ ہو جاو بھائی صاحب نے ڈانٹ کر کہا ۔۔ شیرو کی جب ایک نہ چلی تو حسب منشاہ اُس نے واویلا کرنا شروع کر دیا ۔۔ نہیں مجھے جانا ہے ۔۔ شیرو کی باں باں کی آواز امی تک پہنچی تو امی نے کچن سے آواز دی شیرو کیا بات ہے ۔۔ کیوں شور کر رہے ہو ۔۔ شیرو نے بھائی کی طرف دیکھا اور کہا مجھے ساتھ لے چلو نہیں تو  میں امی کو بتا دوں گا ۔۔شیرو نے اپنا پہلا اور آخری پتہ پھینکا ۔۔ بھائی نے ایک لمبی سانس بھی اور شیرو کو قریب آنے کا اشارہ کیا شیرو ڈرتے ڈرتے قریب آیا بھائی نے اپنا منہ شیرو کے کان کے قریب کیا اور کہا امی کو مت بتانا ۔۔ ایک ہی لمحے میں شیرو شیر ہو گیا ۔۔ اپنی فتح پر خوشی بھنگڑا ڈالنا چاہتا تھا کے بھائی نے پھر منہ کھولا امی کو تو نہیں تم جا کر ابو کو بولو ۔۔۔ اب تم یہاں سے دفعہ ہو جاو ۔۔ شیرو کا والیم پھر اونچا ہو گیا اور باں باں کرتا کچن میں امی کے پاس ۔۔ امی بھائی ساتھ نہیں لے کر جا رہا اُس کو کہو نہ مجھے ساتھ لے کر جائے امی ایک لمحے کیلئے رُکی اور حیرت سے پوچھا وہ کہاں جارہا ہے ؟ “ ورزش کیلئے“ شیرو نے معصومیت سے کہا تو تم گھر میں کر لو ورزش امی نے مُسکراتے ہوئے کہا نہیں مجھے اُس کے ساتھ جانا ہے اچھا میں اُس کو کہوں گی تمہیں ساتھ لے جائے گا ۔۔

اب امی کچن میں ادھر اُدھر گھوم تو شیرو بھی اُن کا پَلو پکڑے گھوم جاتا امی بولو نہ بھائی کو ۔۔اچھا بولتی ہوں ۔۔ پھر امی کچھ کرنے میں مصروف ہو جاتیں شیرو پَلو پکڑے پیچھے پیچھے امی بولو نہ آخر امی نے تنگ آکر کہا شیرو جاو کہیں کھیلو جا کر فارغ ہو کر اُس کو بول دیتی ہوں ۔۔ نہیں ابھی بولو ۔۔ “ یہ بچپن کا بہت بڑا فارمولہ ہے کہ آپ ایک بات کو اتنی بار دہراتے ہیں کے سامنے والا انسان وہ کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے “ آخر امی نے جھنجلاکر بھائی کو آواز دی بھائی کچن میں آئے جی امی  صبح تم جہاں بھی جارہے ہو اِس کو ساتھ لے جانا ۔۔ امی یہ نہیں جا سکتا کیوں نہیں جاسکتا پھر تم کیوں جارہے ہو۔۔ امی اس کے پاس ورزش والے کپڑے نہیں ہیں اور اِس کے بوٹ بھی نہیں ہیں بھائی نے اپنے سارے پتے ایک بار میں پھینک دئیے ۔۔ امی نے کچھ سوچا کوئی بات نہیں میں تیار کر دوں گی، تمہیں پتہ ہے نہ اِس کو ہر کام کرنے کا صرف ایک بار ہی شوق ہوتا ہے تو تم صرف صبح لے جانا ۔۔ نہیں تو صبح مین درواز کھولنے کیلئے چابی نہیں ملے گی ۔۔ امی نے اپنا آخری فیصلہ سنایا ۔۔ بھائی نے خونخوار آنکھوں سے شیرو کو دیکھا ۔۔ شیرو ڈر کر امی کے پیچھے چھپ گیا ۔۔

رات کو بستر پر لیٹے لیٹے شیرو کو کُھلی آنکھوں سے خواب آرہے تھے وہ دوڑ رہا ہے اندھا دھند ایک سو کی سپیڈ سے پھر ناجانے کب اُس کی آنکھ لگ گئی صبح نہ اندھیرے اُس کی آنکھ کُھلی تو کوئی دبے پاؤں اُس کی چارپائی کے پاس سے گزر رہا تھا۔ شیرو نے سوچا بھائی اُس کولیے بغیر جا رہا ہے  شیرو نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں بند کر کے ہاتھ بڑھایا اورپاس سے گزرنے والے کی جو چیز ہاتھ میں آئی کس کر پکڑ لی  ۔۔ ایک آنکھ کھول کر دیکھا تو سامنے ابا جی لُنگی کو پیٹ پر کس کر پکڑے کھڑے تھے اور شیرو کو گھوُر رہے تھے اباجی نے ایک کھنکار لی ، اور شیرو کے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اباجی غضیلی آنکھوں سے شیروکودیکھتے وہاں سے چلے گئے شیرو ابھی پھر نیند کی آغوش میں جانے والا تھا کے پھر سے کوئی قریب سے گزراشیرو نے فورا آنکھیں کھولی دیکھا بھائی باہر کے دروازے کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔۔شیرو نے بھائی کو آواز دی ۔۔بھائی نے اکتاہٹ سے پیچھے مڑ کر دیکھا اور انگلی منہ پر رکھ کر خاموش رہنے کا کہا ۔۔ بھائی شیرو کے قریب آیا اور پوچھا کیا ہے ۔۔ شیرو نے پھر یاد دلایا ورزش ۔۔ بھائی نے جھنجلاہٹ سے کہا! ورزش تو جان عذاب بن گئی ۔ اچھاچل ، شیرو ایک چھلانگ لگا کر چارپائی سے کُودا اورامی کے کمرے کی طرف بھاگنا چاہا بھائی نے پیچھے سے پکڑا" اوئے کدھر جار؟ امی کے پاس امی سے بولوں مجھے تیا ر کر دو

بھائی نے اپنا سرپکڑلیا، ابا کی شادی میں جانا ہے جو تیار ہوگا۔ کپڑے امی کے پاس ہیں اور بوٹ بھی شیرو نے معصومیت سے کہا۔ تو چھوڑا سب اور چل میرے ساتھ ایسے ہی بھائی نے شیرو کو کالر سے پکڑا اور کتورے کی طرح گھسیٹے مین گیٹ سے باہر لے گئے گلیوں سے گزرنے کے بعد میں روڈ پر پہنچ کر بھائی نے شیرو کا کالر چھوڑا اور ہلکا ہلکا دوڑنا شروع کر دیا شیرو نے بھی پیچھے پیچھے دوڑ لگانی شروع کر دی ،صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا شیرو کے چہرے پر پڑی تو شیرو کی طبعیت بحال ہو گئی ۔۔ اب بھائی جی آگئے آگئے شیرو پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا بھائی کبھی کبھی مڑکر پیچھے دیکھ لیتے اور کہتے اوئے شیرو تیز بھاگ ، پر شیرو اُسی سُست رفتاری سے بھاگ رہا تھا آخر بھائی سے رہا نہ گیا واپس پیچھے آئے اور کہا اوئے تیرا مسئلہ کیا ہے تُم تیز نہیں بھاگ سکتے ویسے تو سارا دن گھر سر پر اٹھائے پھرتے ہو، اچھا اب تیز بھاگوں گا شیرو نے کہا ، شیرو بیچارا کیا کرتا بھاگتا تھا تو شلوار کا الاسٹک ڈھیلا ہو جاتا پھر رُک کر کاکاشپاہی کی پینٹ کی طرح اُس کو اٹھاتا پھر بھاگتا پر پھر شلوار ڈھیلی ہو کر نیچے آجاتی پھر رُکتا پھر آٹھاتا اسی شش و پنج میں تھا کے شلوار پکڑے کے دوڑ لگائے بھائی کافی آگئے نکل چکے تھے اُنھوں نے مُڑ کر دیکھا تو شیرو ابھی پیچھے گھسیٹا آرہا تھا بھائی  واپس آئے پھر کہا تیز شیرو تیز بھاگ ایسے ورزش نہیں ہوتی تیز بھاگ تیز بھاگ ۔۔

بھائی میں تیز نہیں بھاگ سکتا شیرو بلبلا اُٹھا میری شلوار ڈھلی ہو جاتی ہے شیرو نے شلوار کی طرف اشارہ کیا، او میرے خدایا ایک تو تم شلوار قیمیض پہن کر دوڑنے کیلئے آگئے ہو اور اُوپر سے شلوار بھی الاسٹک والی ۔۔ او خدایا بھائی پر سخت جھنجلاہٹ طاری ہو گئی، بھائی نے شلوار کا الاسٹک پکڑ کر پورے زور سے کس کر باندھ دیا ، اب ٹھیک ہے نہ اب تیز بھاگنا اچھا اب شیرو کے ہاتھ آزاد ہو گئے تھے اب وہ بھائی کے ساتھ  ساتھ بھاگ رہا تھا بھائی بولے اب مزا آیا نہ ورزش کا ۔۔ ہاں شیرو نے پھولے سانس سے سر ہلایا وہ سامنے سڑک کے کنارے جو درخت ہے نہ اُس کو ہاتھ لگا کر واپس آنا ہے بھائی نے بھاگتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیا شیرو نے دیکھا تو کافی دور تھا اور اُس کی سانس ابھی سے پھول رہی تھی اب بھائی کو بولے کیسے بھائی آہستہ چلو تھوڑا سانس لے لو پر بھائی تو ہوا کے گھوڑے پر سوار دوڑ رہے تھے جیسے اُنھوں نے قریبی دربار سے چاول لوٹنے ہوں نہ پہنچے تو ختم ہو جائیں گئے ۔۔ اب شیرو کی ٹانگیں دائیں بائیں ہونی شروع ہو گئی تھی کے اچانک شیرو بُری طرح لڑکھڑا گیا ۔۔ گرتے گرتے سنبھل گیا  اوسان سنبھلے تو دیکھا ایک پاؤں میں جوتا ہی نہیں ہے جوتا دس قدم پیچھے پڑا ہے شیرو آہستہ  آہستہ چلتے چلتے جوتے کے پاس آیا تو دیکھا جوتا ٹوٹ چکا تھا ۔۔۔ بھائی جو آگے نکل گئے تھے پھر واپس آئے
اب کیاہوا جوتا ٹوٹ گیا شیرو نے کہا ۔ بھائی نے جوتا دیکھا اوئے تو ہوائی چپل پہن کر دوڑ لگانے آیا ہے میں نے تو کہا تھا بوٹ امی کے کمرے میں ہیں آپ نے پہننے نہیں دئیے شیرو نے برخستہ جواب دیا ۔۔ بھائی نے شیرو کو کالر سے پکڑا توواپس گھر چل تو ورزش کے لائق نہیں ہے ۔۔ نالائق ۔۔ گدھا شیرو کی حالت ایسی تھی ایک ہاتھ میں چپل پکڑے دوسرے ہاتھ سے شلوار پکڑے کیونکہ الاسٹک پھر ڈھیلا ہو گیا تھا بھائی کالر سے  پکڑے گھر کی طرف کھینچتے لا رہے تھے جیسے صبح صبح مسجد سے جوتی چوری کرتے پکڑا گیا ہو ۔۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔