-->

23 مئی، 2015

گڑبڑچُھٹی

چھٹیوں کا نام سن کر بدن میں سنسنی دوڑ اٹھتی ہے چھٹیاں پھر سفر طے کرنا پڑے گا آپ بولیں گے کتنا ناشکرا آدمی ہے جو چھٹیاں ملنے پرناخوش ہوتا ایسی بات نہیں چھٹیاں کس کو اچھی نہیں لگتیں پرآخر چھٹیوں میں ہم نے جو اپنے ساتھ کیا اور جو ہمارے ساتھ ہوا اُس کا خیال آتے ہی اپنے آپ پر ہنسی بھی آتی اور پاکستان کے ائیرپورٹ اوراتنی مست پاکستانی عوام دیکھ کر دُکھ بھی ہوتا،آخری سفر میں ایک بات تو ہم پر بڑی واضع ہوئی کہ  “ خرابی سسٹم میں نہیں خرابی ہم میں ہے “  ہم لوگ ہی سدھرنا نہیں چاہتے بہرحال !

جیساچھٹیوں میں ہوتا ہے کے ہم غریب خانہ بدوش دیارے غیر میں ایک سال کی محنت مزدوری مکمل کرنے بعد سفر کا آغاز کرتے ہیں لیکن پچھلے تین سالوں سے تو حد ہی ہو گئی ہم اتنا مصرف ہوئے کے ہم کوئی چھٹی نہ لے سکے اور کچھ پاکستان کے حالات سن اور دیکھ کر ایسا سسپٹائے کے کوئی خاص خواہش بھی نہ رہی۔ بقول شاعرکہ 

خواہش کے اظہار سے ڈرنا سِیکھ لیا ہے
دِل نے کیوں سمجھوتہ کرنا سِیکھ لیا ہے

لیکن آخر بکرے کا باپ کب تک خیر منائےگا، جب گھر سے اماں جی نے جذباتی ٹارچرکر کے ہم کو منا ہی لیا کے ہم جلدی گھر کا چکر لگائیں۔ اسی وقت آن لائن ٹکٹ خریدنے کے بعد ہم نے اماں جی کو تسلی دی کے ہم پدھار رہے ہیں ٹکٹ پر سسرسری سی نظر ڈال کر ایک طرف رکھ دی ابھی ایک ہفتہ باقی تھا۔۔ ہفتہ بھر میں وہی اپنے کام دھندے نپٹانے کے بعد آخر وہ دن آہی گیا جس دن ہم کو سفر پر روانہ ہونا تھا دن کی فلائٹ تھی رات دوستوں کےساتھ موج مستی کرتے رہے اور گھر آکر سوگئے صبح جس دوست نے ہم کو ائیر پورٹ چھوڑنا تھا وہ آدھمکا “تم نے جانا نہیں دیکھو ٹائم کیا ہو گیا صبح کے دس بج گئے ایک بجے فلائٹ ہے کوئی شرم نام کی چیز ہے تم میں “ ہم نے ایک آنکھ کھول اس کی شکل دیکھنے کی بجائے گھڑی کو فوکس کیا دیکھا تو واقعی دس بج گئے تھے ہم سستی سے اٹھےنہانے دھونے کے بعد سامان اُٹھا کر گاڑی میں رکھا اور سفر پر روانہ ہوئے دوست جو عمر میں کافی بڑا تھا  اس کی نصیحتوں کی کیسٹ مسلسل تیزرفتاری  سے چل رہی تھی حالانکہ کے اس کے مقابلے میں گاڑی کی رفتار کافی آہستہ تھی جب اس کی نصیحتیوں کا والیم کم ہوا تو ہم نے دھیمے لہجے سے کہا پائی جان ذرا کسی کیفیٹریا پر تو روکنا ایک کپ چائے تو پی لیں اس نے خونخوار آنکھوں سے ہمیں دیکھا اور پھر اپنا والیم بڑھا دیا “ دیکھا ٹائم کتنا ہو گیا ساڑھے گیارہ ہو چکے تمہیں تو شرم نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے بہرحال اس نے گاڑی ایک کیفے پر روک دی ہم نے چائے کے ساتھ پراٹھا و آملیٹ کا آرڈر بھی دے ہی دیا وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا ۔۔ 
ہم اپنے سفر پر دوبارہ روانہ ہو گئے تقریبا آدھا راستہ طے ہو چکا تھا کے اچانک ہمارے فون کی گھنٹی بجی فون دیکھا تو پاکستان کے نمبر سے فون آرہا تھا۔ ہم دم بخود رہ گئے یہ کس کا فون شاید ائیر لائن والوں کا کے فلائٹ لیٹ ہے ، ابھی ہم انہیں سوچوں میں تھے کے زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے ، فون کی گھنٹی دوبارہ بجی ، ہم نے حوصلہ کرکے فون اُٹھا ہی لیا ہیلو کے بعد دوسری طرف سے آنے والی آواز بھائی کی تھی ، “تم ابھی تک گھر کیوں نہیں پہنچے “ میں جی ! میں راستے میں ہوں “تم کیا وہاں سے پیدل آرہے ہو بھائی نے لقمہ دیا “ نہیں بھائی میں راستے میں ہوں ائیرپورٹ پہنچنے والا ہوں ایک بجے فلائٹ ہے نا “کیا ، بھائی کی آواز کانوں میں گونجی ، بیٹا تیری فلائٹ دن ایک بجے نہیں پچھلی رات ایک بجے کی تھی  ٹکٹ کو کھول کر دیکھ ہی لیتے اب تم ایسا کرو واپس گھر جاواور جا کر سو جاو خبیث “ اور فون بند ہو گیا !  ہم نے جلدی سے ٹکٹ کا والا پیپر کھولا دیکھا تو فلائٹ واقعی پچھلی رات کو گزر چکی تھی ! ہمارا دوست ہم کو خونخوار آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ۔ گاڑی کو واپس گھماکر واپس گھر کی راہ لی اور اب نصیحتوں والی کیسٹ خاموش تھی ہم نے اسی میں عافیت سمجھی !
گھر آنے بعد ہم نے سونے کو ہی ترجیح دی شام میں اٹھے ٹکٹ اٹھایا اور دوست کی ٹریول ایجنسی گئے اس کو سارا واقعہ بتایا پہلے تو وہ ہنسا پھر ٹکٹ چیک کرنے لگا ، یہ نہیں ہوگا اس کیلئے تم کو ائیرلائن کے ہیڈ آفس جانا پڑے گا ، ہم نے کہا کیوں ! “تم نے یہ ٹکٹ آن لائن خریدی ہے ہم اس کو بدل نہیں سکتے “ ہمیں ائیرلائن کی اس اوچھی حرکت پر انتہائی غصہ آیا، ٹکٹ لے کر واپس گھر آگئے ، آئیر لائن کا آفس گھر سے ڈیڈھ سو کلومیٹر دور تھا  پر مرتے کیا نہ کرتے پھر ایک ترکیب سوجھی کیوں نہ وہاں جانے کی بجائے ان کو فون کیا جائے ہم نے فون اٹھایا اور ائیر لائن کا نمبر ملایا پہلی بار تو فون ملنے رہا بار بار ٹرائی کرنے پر ایک انتہائی مسحورکن آواز نے ہم کو اپنے سحر میں جکڑ لیا ، ہم نے اپنا مدعا بیان کیا انھوں نے صرف ایک بات کہی “سر آپ کو آنا پڑے گا ائیر لائن کی پالسی ایسی ہے “ ہم نے لاکھ کہا ہم جانب مشرقی سمت سے بول رہے ہیں جو کے کوسوں دور ہے لیکن ان کااصرار قائم رہا !
یہ سب کرنے کرانےمیں شام کے چھ بج چکے تھے ائیر لائن کا آفس رات نوبجے بند ہوتا تھا ہم نے گاڑی سٹارٹ کی اورسفر پر روانہ ہوئے ساڑھے آٹھ بجے تک ہم ائیر لائن کا آفس ڈھونڈ کران کے ایک عدد صوفہ پر قبضہ جما چکے تھے ، آفس خاص بڑا نہیں تھا ہم آفس کا جائزہ لے رہے تھے کے فون کی گھنٹی بجی ہم کو اس حسینہ کی تلاش تھی جس نے شام کو ہم سے کلام کیا تھا اور ہم اس کی جادوئی آواز کے سحر میں جکڑ کر یہاں تک آن پہنچے تھے۔ فون کی آواز ہمارے صوفہ سے پچھلے والے ڈسک سے آئی تھی جس کی دیواریں صوفہ سے قدرے اونچی تھی لیکن جب اس صوفہ پر بیٹھے تھے اس وقت اس ڈیسک پر کوئی موجود نہیں تھا۔ پھر وہی آواز ہمارے کانوں میں جل ترنگ بجانے لگی کیا میٹھی آواز تھی فون رکھنے کی آواز ساتھ ہی کسی نے دیوار کے اوپر سے آواز لگائی “نازیہ وہ ٹکٹ کے پیپر تو دینا مجھے“ آواز بلکل ہمارے بائیں کاندھے کے اوپر تھی ہم نے سر گھمایا ایک دم ہمارا سانس رُک گیا ہم یوں سیدھے ہو کر بیٹھ گئے جیسے اب مڑکے دیکھا تو پتھر کے ہو جائیں گئے ۔
باری آنے پر کاونٹر پر گئے اور ان سے اپنا مدعا بیان کیا انھوں نےرسم پوچھا “ آپ کی فلائٹ مس کیسے ہو گئی ؟ ہم نے کہا سچ کہوں میں سوتا رہ گیا “انھوں نے حیرت سے دیکھا کہا ، جانے والے تو چار گھنٹے پہلے ائیر پورٹ پہنچ جاتے ہیں ،ویسے  آج رات کی ایک سیٹ خالی ہے کہیں تو کر دو “ سیٹ خالی نہ بھی ہو میں کھڑا ہو کر بھی چلا جاوں گا جتنی میری ہو چکی اس سے اچھا تو میں پیدل ہی نکل جاتا ، یہ ہم نے دل میں سوچا، اس نے نئے ٹکٹ کا پرنٹ میرے سامنے رکھ دیا اورٹائم اور ڈیٹ کو انڈرلائن کرتے ہوئے کہا آج رات ڈیڈھ بجے ۔۔ جیسے کوئی استانی بچے کو سبق یاد کرواتی ۔۔ ہم نے کہا یہ سارا کام تو آپ فون پر بھی کر سکتی تھی پھر ناتواں کو اتنا سفر کیوں کروایا ۔۔ “بس سر ائیر لائن پالیسی ہے “ ہم دانت پیس کر رہ گئے ٹکٹ اٹھایا اور گھر کی راہ لی !
گھر پہنچنے کے بعد دوست کو فون کیا وہ گاڑی لے کر آیا تو پھر واپس ڈیڈھ سو کلو میٹر ائیر پورٹ کی طرف روانگی ہوئی ایک دن میں ہم پانچویں بار اس سٹرک پر خوار ہو رہے تھے نصیحتوں والی کیسٹ پھر فل والیم پرآن تھی ۔
ائیرپورٹ پر داخل ہونے پر ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا،سامان وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد ہم امیگریشن کی قطارمیں کھڑے ہو گئے ہم سے آگےگنتی کے چند افراد جبکے قطار پیچھے کافی لمبی ہو گئی تھی ایک صاحب سفید کڑک کاٹن کی شلوار قمیض پہنے ہوئے سیدھے آئے اور ہمارے آگئے والے صاحب کو پیچھے ہٹا کر قطار میں گھسنے کی کوشش کرنے لگے  ہم نے ان کی شکل دیکھی جو بلکل بھی معزز نہیں تھی ہم نے ادھر ادھر نظر دوڑائی دوسری طرف ایک پولیس والا ان کو دیکھ رہا تھا ہم نے اس کی طرف دیکھا وہ سمجھ گیا کچھ گڑبڑ ہے وہ آرام سے چلتا ہوا ان صاحب کی طرف آیا اور عربی میں کہا (بابا شُو مشکل، شو ہازسوق السمك ، اس نے غیر معززانسان کو انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ، سیر حیناک آخر ) کیا مسئلہ ہے یہ مچھلی منڈی ہے  چلو سب سے آخر میں  وہ صاحب بنا کچھ کہے ایک بچے کی طرح چلتے ہوئےواپس قطار کے آخر کی طرف چل دئیے میرے قریب سے گزرا تو ہم نے لقمہ دیا ہر جگہ کو پاکستان سمجھا ہے وہ ایک لمحے کو رکے غضیلی آنکھوں سے ہمیں دیکھا اور قطار کے آخر میں جا کر کھڑے ہو گئے  
جہازاب ائیر پورٹ سے فضا میں بلند ہو چکا تھا اور صبح کے تقریبا چاربج چکے تھے جب ائیر ہوسٹس بیچاریوں نے کھانا کھولا پھر تو ہر طرف سے پانی دینا ۔۔ ہیلو بوتل دینا ، ابھی بھی وہ صاحب جن کو قطار میں سب سے آخر میں کھڑا کیا تھا کوئی مسئلہ لیے بیٹھے تھے ہم نے غور سے سنا تو چاول ٹھنڈے ہیں ائیر ہوسٹس دوبار گرم کر کے لائی پھر بھی وہ کوئی نہ کوئی نقص نکال ہی دے رہے تھے ہمیں ان کے حالات دیکھ کر “ان کی زوجہ پربڑا ترس آیا یقینا وہ جنتی عورت ہو گی “ جہاز کے پچھلے حصے میں کوئی تو تومیں میں کی الگ ہی تونگنی بج رہی تھی ایک ائیر ہوسٹس بیچاری مشکل سے آنسو چھپاتی قریب سے گزری کسی منچلے نے کوئی انتہائی بدتمیزی کی تھی جب سب کاموں سے فراغت ہوئی تو شکرتھا کے جہاز  لاہور کے قریب تھا ،صبح سورج طلوع ہو رہا تھا آسمان پر بادلوں سے اوپر اڑتے وہ سنہرا سا دن آج تک وہ منظر آنکھوں کے سامنے ہے ۔ 
جہاز کے اترنے سے پہلے لوگوں نے جہاز کے سامان والے باکس کھول دئیے اور سامان نکال کر اٹھ کھڑے ہوئے جہاز کا کپتان بیچارہ چیختا رہ گیا جب تک جہاز اتر کر پوری طرح رُک نہ جائے  براہ مہربانی اپنی نشیسٹ پر بیٹھے رہیں پر نقارہ میں طوطی کی آواز سنتا کون ۔ 
ہم جہازمیں سے اترنے والے سب سے آخر میں تھے  امیگریشن میں لمبی لمبی لائن لگئی تھی ہلڑ بازی شروع ہو چکی تھی دو لڑکوں کو امیگریشن والے لائن سے نکال کر کمرے میں لے گئے ہم نے آگے والے سے پوچھا انھوں نے کیا کیا ، پائی جان وہی ہیں جنھوں نے سارے راستہ جہاز سرپر اٹھا رکھا تھا تو ہم کو معلوم ہوا یہ وہی تھے جنھوں نے ائیر ہوسٹس سے بدتمیزی کی تھی ۔
ہمارے کانوں میں پھر کسی کے لڑنے کی آواز آئی ایک قطار چھوڑ تیسری قطار میں وہی سفید کاٹن کے کپڑوں والے ایک پولیس والے کو اس کی پیٹی اتروانے کی دھمکی دے رہے تھے ساتھ میں غلاظت بک رہے تھے طریقہ واردات وہی تھا قطار توڑ کر آگے آئے تھے پولیس نے روکنے کی کوشش کی تو صاحب اپنے واسطے گنوانے لگے اور ۔۔۔  مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کے ہر کتا اپنی گلی کا شیر ہوتا ہے ۔
امیگریشن میں ابھی یہ ڈرامہ جاری تھا ہم وہاں سے نکل کر سامان کی طرف آئے سامان اٹھا کر باہر نکلنے لگے تو پولیس والے نے اشارہ کیا سامان مشین سے کےاندرسے نکالو تین فلائٹیں آئیں تھی اور ایک سکیورٹی سکین مشین چالو تھی جس پر خوب دھکم پیل جاری تھی، ہم نے ساتھ کھڑے دوتارے پولیس والے کو کہا بھائی جان ان کی قطار کیوں نہیں لگاواتے، اس نے امیگریشن کی طرف اشارہ کیا اور کہا “تم نے دیکھا نہیں ہماری کوششں کا انجام ، یہ لوگ اسی قابل ہیں “ ہم نے کچھ دیر تو انتظار کیا پھر اپنا بیگ گھما کر مشین پر پھینکا دھکے دیتے ہوئے باہر نکل آئے آخر ہم کو پاکستان پہنچے دو گھنٹے ہو چکے تھے ہم پرآب و ہوا  کا اثر ہونے لگا تھا۔  
بس سٹینڈ پر پہنچ کر ڈئیوکی بس سروس کا انتخاب کیا لیکن دو گھنٹے کا سفر چار گھنٹے میں طے ہوا پتا نہیں چل رہا تھا بس پٹرول پر ہے یاں بیٹری سیل پر ۔۔ 
بس اپنے شہر کے سٹینڈ پر رکھی تو رکشے والے ہر اترنے والی سواری کے ارد گرد ایسے ہالا بنا کر چکر کاٹنے لگے جیسے ان کے پیرومرشد آگئے ہوں ۔ 

2 دسمبر، 2014

دسمبری نفسیات

سائنسی اور دُنیاوی علوم سےمعلوم ہوا کے دسمبرایک نیم سرد مہینہ ہے لیکن اس میں بدلتے لوگوں کے رویے نے اس کو دلچسپ بنا دیا ہے
ہرکوئی اس نیم سرد اور خشک مہینے کو اپنے طریقے سے محسوسس کرتا ہے
اب یہ انسان اس دسمبر کے مہینے کو اتنا اہم کیوں سمجھتے ہیں آج ہم اس وجہ کو سائنسی اور سماجی طور پر جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ  دسمبر میں سردی کافی بڑھ جاتی ہے تو ہر کوئی یہ کہتا کے آج سردی بہت ہے  یہ نقطہ بیکار ہے دسمبر میں سردی ہی پڑے گی گرمی تھوڑی ہو گی ، سردیوں میں دن سکڑ جاتے ہیں یہ نقطہ نظر یہاں نا قابل بیان ہے اس کیلئے آپ کو چاچو کی کتاب “ میں اور میری گندی سائنس “ پڑھنی پڑے گی !
اگرآپ کا دل اور دماغ پھر بھی مطمئین نہیں ہوتا تو دوسری کتابوں سے استفادہ حاصل کریں، ہم نے کوئی ٹھیکہ نہیں لیا کے آپ کو ایک پوسٹ میں پوری سائنس پڑھا دیں۔

دسمبر انسانی رویوں پربہت زیادہ اثر کرتا ہے۔  چلیں دیکھتے ہیں چند نفسیاتی پہلو دسمبر ہر کوئی الگ طریقہ سے محسوس کرتا ہے شادی شدہ کا محسوسنے کا طریقہ الگ ہے چونکہ راتیں لمبی ہوجاتی ہیں جو حضرات حکیمی نسخہ جات کی وجہ سے گرمیوں کی چپِ  چَپ کرتی راتیں بڑی آسانی سے نکال لیتے ہیں اُن کیلئے سردیوں کی لمبی راتیں گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے جوڑوں کے درد ، بخار ، نزلہ زکام اور کالی کھانسی وبائی امراض کا بہانہ کر کے ازواجی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔
کنواروں کے لیےدسمبرکی راتیں گزارنا مشکل کام نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی بھڑاس شاعری پر نکال لیتے ہیں شاعری بھی ایسی کے جس میں جاڑوں کی راتیں ، اور خشک میوہ جات کا ذکر کثرت سے پایا جاتا ہے، چند اشعار ہم چاجو کی کتاب “ امام دین سے بڑھ کر “ سے اقتباس کرتے ہیں
چاچو فرماتے !

صبح صبح کام پر جانا پڑ گیا
ٹھنڈے پانی سے نہانا پڑ گیا

ہم ہو تے ایسے ایک جسم دو جاں
جیسے مونگ پھلی کے دو دانے

ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں

چادربھی نہیں دُھسہ بھی نہیں
میں گھر سے نکل آیا شمیز پہن کر

اور فرماتے ہیں
ٹھنڈی ہوائیں کیا چلی میرے شہر میں
ہرطرف لوگوں نےسوئیٹربکھر دئیے

صفت نازک کا دسمبر سے تعلق بیان کرنا ایسے ہی ہے جیسے طالبان کو امریکہ کا ویزہ دلوانا لیکن بندہ ناچیز کوشش کرتا ہے کہ اس تعلق کے کچھ قیمتی رازوں کو افشاں کرے تاکہ آنے والی نسلیں ہماری اس کاوش کو انٹرنیٹ پر ٹوئیٹوں کی صورت پھیلا کر ہمارے لیے مسلسل عذاب دارین کا باعث بنیں ۔
دسمبر کے شروع ہوتے ہی صفت نازک کا پہلا ہتھیار ہوتا ہے شاعری محبوب کی یاد ، تیری خاطر دسمبر میں ، ایسی شاعری لکھی اور پوسٹی جاتی ہے کے یقین ہونے لگتا ہے کے محترمہ صرف چند دن کی مہمان ہے ایسی شاعری کے چند اشعار ہم منتخب کرتے ہیں چاچو کی کتاب ( ڈانگے دسمبر

گزر جاتا ہے سارا سال یوں ہی
نہیں کٹتا ، مگر یہ دسمبر !
سارا سال گزار کر اب دسمبر میں کیا تکلیف اُٹھی ہے واللہ عالم

ایک اور جگہ چاچو فرماتے !

مونگ پھلی میں دانہ نہیں
ہم نے تمہارے گھر آنا نہیں
یہ شعر چاچو کی کتاب “ میں اور میری نکمی سہیلی) سے لیا گیا ہے ۔

ایسی شاعری کو پڑھ کر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کے  صبح صبح سردی میں گرم بستر سے  اُٹھ کر بچوں کے پوتڑے دھونا ، بچوں کو سکول کی تیاری کرنا، ٹھنڈے پانی سے برتن دھونا، پانی گیس کی کمی اور محبوب کے وبائی بیماری کے بہانےیہ سب صفت نازک کو ایسی شاعری کی طرف دھکیل دیتے ہیں چند امکانات میں محبوب کا وقت پر ایزی لوڈ نہ بھی کروانا  اس امرکی وجہ ہوتی ہے ۔
اب ہم آتے ہیں دسمبر کی اجتماعی مشکلات کی طرف
سردیوں میں دو چیزوں کا رجحان بڑھ جاتا ہے کھانا اور شادیاں ، ویسے بھی ہماری قوم کھانے کی اتنی شوقین ہے کے بکرے کی کوئی چیز نہیں چھوڑتے بکرے کو تو کھا کر، اُس کی کھال تک اوڑ لیتے ہیں کھانے کے بہانے ، بہانے بہانے سے ڈھونڈے جاتے ہیں بڑے دنوں کی چھٹیاں اہم ہیں فون کر کے پہلے ہی اطلاع کر دی جاتی ہے کہ ہم پدھار رہے باتوں باتوں میں سب کی پسند ناپسند بھی گنوا دی جاتی ہیں  آپ کے بہنوئی کو مچھلی کے انڈے بڑے پسند ہیں آپکی خالہ بکرے کی ہڈیوں کا کچومر دیسی گھی میں بھون کر کھاتی ہیں آپ کے ماموں کے بیٹے گاجر کے حلوے پر قورمے کا سالن ڈال کر کھاتے ہیں۔ سب کچھ کرنے کے بعد کھانے والے صرف یہ کہتے ہیں اس میں نمک کم تھا میٹھا تیز تھا ، تیل زیادہ تھا تو یقین کریں ،  ایسی بہت سی وجوہات ہیں جوصفت نازک کی نفسیاتی تباہی کا موجد بنتی ہیں۔ اس کے نتائج  اگلے تین ہفتے آپ کو ایسی غم ناک شاعری دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے کہ اللہ کی پناہ ۔
دسمبری شادیاں بھی کچھ کم نہیں ہوتیں شادی ھال کی بُکنگ سے لے کر بارت کی روانگی تک پھڈے ہی ہوتے رہتے ہیں کبھی خالہ ناراض تو کبھی چاچا زیادہ گرم پانی سے نہا کر جلا بُھنا بیٹھا ہوتا ہے دوُلہا سر پرکلا سجائے یوں گھوم رہا ہوتا ہے جیسے طالبان کا خود کش بمبار موقع ملتے ہی پھٹ جائے گا شیروانی ایسی کے تاتاری شہزادے بھی شرما جائیں بس ایک تلوار اور گھوڑے کی کمی ہوتی ہے وگرنہ یوں ہی لگے دوُلہن بیاہنی نہیں فتح کر کے لانی ہے
اب مردانہ مسائل تو مرد کی جیب سے شروع ہو کر جیب پر ہی ختم ہو جاتے ہیں، جب کوئی سیانا  شادی کے بعد الگ سے جا کر مشورہ دیتے ہیں کہ بیٹا سردیاں ہیں خشک میوہ جات لاؤ تمہیں دوائی بنا دوں ، موصوف بھاگے بھاگے خشک میوہ جات کی دُکان پر تو پہنچ جاتے ہیں پر سردیاں آتے ہی میوہ جات کی قیمت آسمانوں پر جا ٹکتی ہے دوُکان پہنچ کرٹوکریوں میں سجے میوہ جات کو یوں دیکھتے ہیں جیسے ڈنڈا کھانےکےبعد الڑیل گدھا کمہار کو ۔