-->

2 دسمبر، 2014

دسمبری نفسیات

سائنسی اور دُنیاوی علوم سےمعلوم ہوا کے دسمبرایک نیم سرد مہینہ ہے لیکن اس میں بدلتے لوگوں کے رویے نے اس کو دلچسپ بنا دیا ہے
ہرکوئی اس نیم سرد اور خشک مہینے کو اپنے طریقے سے محسوسس کرتا ہے
اب یہ انسان اس دسمبر کے مہینے کو اتنا اہم کیوں سمجھتے ہیں آج ہم اس وجہ کو سائنسی اور سماجی طور پر جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ  دسمبر میں سردی کافی بڑھ جاتی ہے تو ہر کوئی یہ کہتا کے آج سردی بہت ہے  یہ نقطہ بیکار ہے دسمبر میں سردی ہی پڑے گی گرمی تھوڑی ہو گی ، سردیوں میں دن سکڑ جاتے ہیں یہ نقطہ نظر یہاں نا قابل بیان ہے اس کیلئے آپ کو چاچو کی کتاب “ میں اور میری گندی سائنس “ پڑھنی پڑے گی !
اگرآپ کا دل اور دماغ پھر بھی مطمئین نہیں ہوتا تو دوسری کتابوں سے استفادہ حاصل کریں، ہم نے کوئی ٹھیکہ نہیں لیا کے آپ کو ایک پوسٹ میں پوری سائنس پڑھا دیں۔

دسمبر انسانی رویوں پربہت زیادہ اثر کرتا ہے۔  چلیں دیکھتے ہیں چند نفسیاتی پہلو دسمبر ہر کوئی الگ طریقہ سے محسوس کرتا ہے شادی شدہ کا محسوسنے کا طریقہ الگ ہے چونکہ راتیں لمبی ہوجاتی ہیں جو حضرات حکیمی نسخہ جات کی وجہ سے گرمیوں کی چپِ  چَپ کرتی راتیں بڑی آسانی سے نکال لیتے ہیں اُن کیلئے سردیوں کی لمبی راتیں گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے جوڑوں کے درد ، بخار ، نزلہ زکام اور کالی کھانسی وبائی امراض کا بہانہ کر کے ازواجی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔
کنواروں کے لیےدسمبرکی راتیں گزارنا مشکل کام نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی بھڑاس شاعری پر نکال لیتے ہیں شاعری بھی ایسی کے جس میں جاڑوں کی راتیں ، اور خشک میوہ جات کا ذکر کثرت سے پایا جاتا ہے، چند اشعار ہم چاجو کی کتاب “ امام دین سے بڑھ کر “ سے اقتباس کرتے ہیں
چاچو فرماتے !

صبح صبح کام پر جانا پڑ گیا
ٹھنڈے پانی سے نہانا پڑ گیا

ہم ہو تے ایسے ایک جسم دو جاں
جیسے مونگ پھلی کے دو دانے

ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں

چادربھی نہیں دُھسہ بھی نہیں
میں گھر سے نکل آیا شمیز پہن کر

اور فرماتے ہیں
ٹھنڈی ہوائیں کیا چلی میرے شہر میں
ہرطرف لوگوں نےسوئیٹربکھر دئیے

صفت نازک کا دسمبر سے تعلق بیان کرنا ایسے ہی ہے جیسے طالبان کو امریکہ کا ویزہ دلوانا لیکن بندہ ناچیز کوشش کرتا ہے کہ اس تعلق کے کچھ قیمتی رازوں کو افشاں کرے تاکہ آنے والی نسلیں ہماری اس کاوش کو انٹرنیٹ پر ٹوئیٹوں کی صورت پھیلا کر ہمارے لیے مسلسل عذاب دارین کا باعث بنیں ۔
دسمبر کے شروع ہوتے ہی صفت نازک کا پہلا ہتھیار ہوتا ہے شاعری محبوب کی یاد ، تیری خاطر دسمبر میں ، ایسی شاعری لکھی اور پوسٹی جاتی ہے کے یقین ہونے لگتا ہے کے محترمہ صرف چند دن کی مہمان ہے ایسی شاعری کے چند اشعار ہم منتخب کرتے ہیں چاچو کی کتاب ( ڈانگے دسمبر

گزر جاتا ہے سارا سال یوں ہی
نہیں کٹتا ، مگر یہ دسمبر !
سارا سال گزار کر اب دسمبر میں کیا تکلیف اُٹھی ہے واللہ عالم

ایک اور جگہ چاچو فرماتے !

مونگ پھلی میں دانہ نہیں
ہم نے تمہارے گھر آنا نہیں
یہ شعر چاچو کی کتاب “ میں اور میری نکمی سہیلی) سے لیا گیا ہے ۔

ایسی شاعری کو پڑھ کر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کے  صبح صبح سردی میں گرم بستر سے  اُٹھ کر بچوں کے پوتڑے دھونا ، بچوں کو سکول کی تیاری کرنا، ٹھنڈے پانی سے برتن دھونا، پانی گیس کی کمی اور محبوب کے وبائی بیماری کے بہانےیہ سب صفت نازک کو ایسی شاعری کی طرف دھکیل دیتے ہیں چند امکانات میں محبوب کا وقت پر ایزی لوڈ نہ بھی کروانا  اس امرکی وجہ ہوتی ہے ۔
اب ہم آتے ہیں دسمبر کی اجتماعی مشکلات کی طرف
سردیوں میں دو چیزوں کا رجحان بڑھ جاتا ہے کھانا اور شادیاں ، ویسے بھی ہماری قوم کھانے کی اتنی شوقین ہے کے بکرے کی کوئی چیز نہیں چھوڑتے بکرے کو تو کھا کر، اُس کی کھال تک اوڑ لیتے ہیں کھانے کے بہانے ، بہانے بہانے سے ڈھونڈے جاتے ہیں بڑے دنوں کی چھٹیاں اہم ہیں فون کر کے پہلے ہی اطلاع کر دی جاتی ہے کہ ہم پدھار رہے باتوں باتوں میں سب کی پسند ناپسند بھی گنوا دی جاتی ہیں  آپ کے بہنوئی کو مچھلی کے انڈے بڑے پسند ہیں آپکی خالہ بکرے کی ہڈیوں کا کچومر دیسی گھی میں بھون کر کھاتی ہیں آپ کے ماموں کے بیٹے گاجر کے حلوے پر قورمے کا سالن ڈال کر کھاتے ہیں۔ سب کچھ کرنے کے بعد کھانے والے صرف یہ کہتے ہیں اس میں نمک کم تھا میٹھا تیز تھا ، تیل زیادہ تھا تو یقین کریں ،  ایسی بہت سی وجوہات ہیں جوصفت نازک کی نفسیاتی تباہی کا موجد بنتی ہیں۔ اس کے نتائج  اگلے تین ہفتے آپ کو ایسی غم ناک شاعری دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے کہ اللہ کی پناہ ۔
دسمبری شادیاں بھی کچھ کم نہیں ہوتیں شادی ھال کی بُکنگ سے لے کر بارت کی روانگی تک پھڈے ہی ہوتے رہتے ہیں کبھی خالہ ناراض تو کبھی چاچا زیادہ گرم پانی سے نہا کر جلا بُھنا بیٹھا ہوتا ہے دوُلہا سر پرکلا سجائے یوں گھوم رہا ہوتا ہے جیسے طالبان کا خود کش بمبار موقع ملتے ہی پھٹ جائے گا شیروانی ایسی کے تاتاری شہزادے بھی شرما جائیں بس ایک تلوار اور گھوڑے کی کمی ہوتی ہے وگرنہ یوں ہی لگے دوُلہن بیاہنی نہیں فتح کر کے لانی ہے
اب مردانہ مسائل تو مرد کی جیب سے شروع ہو کر جیب پر ہی ختم ہو جاتے ہیں، جب کوئی سیانا  شادی کے بعد الگ سے جا کر مشورہ دیتے ہیں کہ بیٹا سردیاں ہیں خشک میوہ جات لاؤ تمہیں دوائی بنا دوں ، موصوف بھاگے بھاگے خشک میوہ جات کی دُکان پر تو پہنچ جاتے ہیں پر سردیاں آتے ہی میوہ جات کی قیمت آسمانوں پر جا ٹکتی ہے دوُکان پہنچ کرٹوکریوں میں سجے میوہ جات کو یوں دیکھتے ہیں جیسے ڈنڈا کھانےکےبعد الڑیل گدھا کمہار کو ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔