-->

31 جنوری، 2013

خالی ڈگری


خالی ڈگری تو ایک ایسا بے مُراد سا کاغذہے جو صرف ہلدی اور نمک باندھنےکے کام ہی آسکتا ہے۔۔جب تک اُسے رشوت ،مکر،جھوٹ اور خُوشامد کے پَرلگا کر بے ضمیری کی پھونکیں نہ ماری جائیں  یہ کاغذنہیں اُڑتا ۔۔۔محنت قابلیت اور سچ تواِس جہاںمیں پتھر کے پَرہیں جنہیں انسان جسم کے ساتھ باندھ لے تو ڈوب سکتا ہے اُڑپھر بھی نہیں سکتا۔
مستنصرحُسین تارڑ  (پرندے)

29 جنوری، 2013

بارہ سنگھے (ایویں)

آپ نے بارہ سنگھے کی کہانی تو سنی ہو گی جس میں ایک بارہ سنگھے کو اپنے سینگوں پر بڑا ناز تھا لیکن بے چارہ کتوں کے ہاتھوں مارا گیا لیکن بارہ سنگھے ہوتے بڑے کمال ہیں۔ ایک ان کی اپنی الگ پہچان ہے اور پہچان پھر وہی سینگ ہیں، میں بارہ    سینگوں سے اتنا متاثرہوا کہ مجھے ٹوئٹر پر بیٹھے لوگ بھی بارہ سنگھے نظر آتے ہیں۔ اُس کی وجہ خصلتیں ہیں۔ بارہ ساگھ   ٹکر مارتا ہے تو ٹوئٹر پر بھی حضرات پہلے ڈی ایم پر ایک زور دار ٹکر مارتے ہیں اگر تو نر نکل آئے تو اُس کے   ساتھ سیاسی اور مذہبی اختلاف کے سینگ پھنسا لیتے ہیں اور آخر بات کفر کے فتووں تک آہی جاتی ہے اور اگر مادہ نک آئےتو پھر شاعر مشرق ، مفکر اور فلاسفر کا دورہ شروع ہو جاتا ہے کر کرگوگل سے کاپی پیسٹ بیچارے ہاتھ میں پکڑے چوہے کا دم نکال دیتے ہیں۔ زندگی میں شاید دانت اتنی بار پیسٹ نہ کئے ہوں لیکن کاپی پیسٹ دھڑا دھڑ چلتا رہتا ہے، لیکن اس کاپی پیسٹ میں اگر کوئی رقیب ڈی ایم ٹکر زیادہ زور دار مار دے تو ۔۔۔  اب پھر بارہ سنگھے وہی کرتے ہیں سینگ پھنسا لیتے ہیں یا سر اور دُم اٹھا کر دانت دکھاتے  ہیں اور پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں ۔
تو یہ چکر چلتا  رہتا ہے جب تک کے فا لو کرنے والی لیسٹ ممکن حد سکرین تک نہ پہنچ جائے ۔
(متاثر ڈی ایم پونڈی جعفر حسین )

28 جنوری، 2013

پیش لفظ

نہ تو میں کوئی افسانہ نگار ہوں نہ ہی کوئی بہت بڑا کہانی نویس بس دل کی حسرت تھی کے  کوئی ایسا کام  کر دنیا تجھے یاد کرے پر عمر بیتی بیتی اور بیتی گئی ، کوئی ایسا کام نہ کر سکے جس سے دنیا ہمیں یاد کرے ۔یعنی ہم اس دنیا میں ایک عام مینگو پیپل بن کر رہ گئے تھے بس چند دوستوں سے ایسے مُلاقات ہوئی تو سب خوش اور آپس میں بلاگروں کی ایک دو کرتے ہمیں تو سمجھ نائی یہ کیا ہے پر ہم مشکور ہیں اپنے بابے پیٹر شاہ صاحب کے جنھوں نے ہمیں سمجھایا اور ساری رام کتھا سمجھائی ۔پھر ہمیں بات کچھ کچھ سمجھ میں آئی قصہ مختصر ۔۔۔بلاگ  ایسی چیز ہے  آپ  کے من کو جواچھا  لگے جو آپ سوچیں اُس کو لکھ دیں پڑھنے والا خودہی ٹکریں مار کر سمجھ جائے گا کیا لکھا ہے ۔
اب سب سے پہلے یہ مشکل ہوئی  کے بلاگ کا نام کیا رکھا جائے ایک بار پھر ہمارے بابے پیٹر شاہ صاحب کی مدد درکار ہوئی لیکن اب بابے مہاراج کے سامنے جو نام رکھا جاتا وہ ہمیشہ کی طرح اس جملے سے شروع کرتے "اے کی چول نام ہویا "اب بندا پوچھےکریں تو کیا کریں ۔ بلاگ کا نام ، فقیر، سائیں، جوگی، ملنگ، بونگا ملنگ ،حسرتیں ،جوگی  پتا نہیں کیا کیا تجویز کیا گیا لیکن بابے مہاراج نے اثبات میں سر نہ ہلایا ۔ہم نے کہ میرا د ل چاہتا ہے کہ میں ایسا ذرا فقیرانہ نام رکھوں پر نہیں جی ۔
ہم نے سوچا یہ آگ کی دیوار ہمیں خود ہی پھلانگنی ہو گی طے ہو اکے ہم اپنے نومولودہ بلاگ کا نام خود ہی رکھیں گئے کیونکہ ہمیں یقین ہے کے نام ہم نے ہی رکھا ہے توپڑھیں گے بھی بس ہم ہی نا تو ہم مستنصر حسین تارڑ ہے اور نہ ہی احمد ندیم قاسمی کے بلاگ آن لائین ہوتے ہی کُڑیا ںہمارے آٹو گراف مانگنے کے لیے لائن باندھ لیں گی ۔ اب دل میں ایک بات تو آئی  جہاں جعفر حسین اور ڈفر جیسے گدھ بلاگر بیٹھے ہوں وہاں تجھے کون لفٹ کرائے گا ؟۔ تو یہ سوچ کر حوصلہ ہو ا۔۔۔۔
جان جائے خرابی سے  ۔
ہاتھ نہ رُکے بلاگی سے ۔
اب یہ پیش لفظ کیا ہماری جانے بلا ہم نے تو یہ دیکھا ہر کتاب شروع ہونے سے پہلے پیش لفظ ہوتا ہے اب یہ لفظ تو رب نے عطا کئے اوردماغ ایسی مشین بنایا ہے کے یہ ایک بار الفاظ شروع کر دے تو پھر رُکتا ہی نہیں سوچا الفاظ کے سمندر میں سے دو چار ڈونگے ہم بھی نہا لیں شاید من ٹھنڈ پے جائے۔